سردار سلیمانی کے قتل سے متعلق وائٹ ہاؤس کی سرکاری رپورٹ اور ٹرمپ کے بیانات میں تضاد
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال تین جنوری کو اپنے ایک جارحانہ اقدام میں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ افراد کو بغداد ایئرپورٹ پر قتل کئے جانے کا براہ راست حکم جاری کیا تھا-
ٹرمپ کے دعووں کے باوجود اس وقت وائٹ ہاؤس کی سرکاری رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد اس سلسلے میں واضح تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے-
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین الیوٹ انگل Eliot Engel نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی سرکاری رپورٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے میں، کہ جنرل سلیمانی پر حملہ ایک "فوری خطرے" کی روک تھام کے لئے انجام دیا گیا تھا ، کھلاتضاد پایا جاتا ہے- امریکہ کے اس سینئر قانون ساز نے اس امر پر تاکید کی ہے کہ وائٹ ہاؤس کی سرکاری رپورٹ میں عنقریب کسی خطرے کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکی صدر نے اس حملے کے جواز کے تعلق سے اپنے عوام کے سامنے جھوٹ بولا ہے
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ جنرل سلیمانی پر حملے کے جواز کے لئے ٹرمپ نے جس قانونی شق کا سہارا لیا ہے وہ غلط ہے- اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کے بعض حکام نے کہا تھا کہ جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر امریکی ڈرون حملہ، 2002 میں عراق کے سلسلے میں منظور ہونے والے اس قانون کی بنیاد پر کیا گیا ہے کہ جس کی رو سے 2003 میں عراق پر حملہ کیا گیا تھا- انگل کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے توسط سے اس قانونی شق کو جواز قرار دینے کا مقصد، اپنے اقدامات سے کانگریس کے سامنے جواب دہ ہونے سے فرار کرنا ہے- انگل نے کہا کہ حکومت نے اپنے اقدامات کے بارے میں کانگریس میں وضاحت دینے سے اجتناب کرنے کے لئے یہ غلط دعوی کیا ہے کہ کانگریس نے 2002 کے بل کے ذیل میں اس حملے کو مجاز قرار دیا ہے اور یہ بہانہ قانونی لحاظ سے بیہودہ اورعبث ہے- یہ قانون 2002 میں صرف صدام حسین سے مقابلے کے لئے منظور کیا گیا تھا اور اس کا ایران سے یا عراق میں موجود ایرانی حکام سے کوئی ربط نہیں ہے- انگل نے مزید کہا کہ یہ کہنا کہ اٹھارہ سال بعد بھی اس قانون سے، ایک ایرانی عہدیدار کے قتل کے جواز کے لئے استفادہ کیا جا سکتا ہے، قانون کے دامن کو کانگریس کے مدنظر اہداف کے دائرہ کار سے بڑھا دیتا ہے-
واضح رہے کہ سردار محاذ استقامت جنرل قاسم سلیمانی تین جنوری کو عراقی حکام کی دعوت پر عراق گئے تھے جہاں بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی دہشت گرد فوج نے ان کے کنوائے پر بزدلانہ حملہ کردیا تھا۔ اس حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے علاوہ عراق کی عوامی رضاکار فورس حشدالشعبی کے ڈپٹی کمانڈر جنرل ابومہدی المہندس اور آٹھ دوسرے افراد شہید ہوگئے تھے۔ پنٹاگون کے اعلان کے مطابق اس ہوائی حملے کا حکم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے براہ راست صادر کیا تھا- امریکہ نے اس جارحانہ اقدام کے لئے یہ دعوی کیا تھا کہ جنرل سلیمانی امریکیوں اور اس کے فوجی اڈوں کے خلاف منصوبہ بندی کے مقصد سے عراق گئے تھے اسی لئے امریکہ کا یہ حملہ ایک پیشگی اقدام تھا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ عراق کے سینئر حکام نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے- عراق کے عبوری وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے اتوار پانچ جنوری کو اس ملک کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ جنرل سلیمانی عراق کے توسط سے ایران کا پیغام سعودی عرب کو پہنچانے کے لئے، عراق میں داخل ہوئے تھے-
عبدالمہدی نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنی تقریرمیں کہا تھا کہ جنرل سلیمانی ، سعودی عرب کے خط کا ، ایران کی جانب سے جواب لے کر بغداد گئے تھے کہ جسے اس سے قبل بغداد نے تہران کو دیا تھا- اس طرح سے واشنگٹن کے دعوے کا مکمل طور پر جھوٹ ہونا آشکارا ہوجاتا ہے۔ درحقیقت ٹرمپ انتظامیہ تقریبا ڈیڑھ سال قبل جنرل سلیمانی کے قتل کا ارادہ رکھتی تھی اور اس کے لئے وہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھی- ٹرمپ کے فوجی و سیکورٹی مشیروں کے نقطۂ نگاہ سے، بغداد میں جنرل سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی ایک ساتھ موجودگی، واشنگٹن کے لئے ایک سنہرا موقع تھا کہ جسے وہ ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتا تھا اور اس طرح سے امریکیوں نے اپنے بزدلانہ حملے کے ذریعے ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا-
درحقیقت امریکہ کے سابق صدور جارج ڈبلیو بش اور بارک اوباما میں اس طرح کا اقدام، اس کے سنگین نتائج کے خوف و ہراس کے باعث انجام دینے کی جرات نہیں تھی۔ لیکن ٹرمپ نے ایک صدر کی حیثیت سے یہ ثابت کردیا کہ وہ کبھی بھی اور کسی وقت بھی اپنے احمقانہ اقدام کے نتائج کی پرواہ کئے بغیر اسے انجام دے سکتے ہیں-
الیوٹ انگل کا خیال ہے کہ جنرل سلیمانی کے قتل کے ٹرمپ کے فیصلے نے ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے اور امریکہ کو، ایران کے ساتھ جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے جبکہ امریکی عوام ایسا نہیں چاہتے-اس وقت جنرل سلیمانی اور ان کے ہمراہ افراد کے قتل کے بارے میں وائٹ ہاؤس اور ٹرمپ کے بیانات میں پائے جانے والے تضاد سے، کہ جس سے امریکی کانگریس کے ایک سینئرنمائندے نے پردہ اٹھایا ہے، اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ٹرمپ اپنے اس جارحانہ اقدام کے لئے کسی بہانے کی تلاش کے درپے تھے-