Jan ۲۳, ۲۰۲۲ ۱۱:۴۰ Asia/Tehran
  • ایران، روس اور چین کی مشترکہ بحری مشقیں، اہمیت اور اغراض و مقاصد (مقالہ)

ایران، روس اور چین نے جمعہ اکیس جنوری کو "   2022 میرن سیکورٹی بیلٹ  (2022 Marine Security Belt) کے نام سے موسوم دوسری مشترکہ بحری مشقیں انجام دیں۔

شمالی بحر ہند اور بحیرہ عمان میں انجام پانے والی ان تین ملکی بحری مشقوں میں ایران کے چودہ، روس کے تین اور چین کے دو بحری دستوں نے حصہ لیا۔ ایران، روس اور چین کی ان مشترکہ بحری مشقوں میں سمندری سیکورٹی سے متعلق مختلف کارروائیوں کی مشقیں کی گئيں جن میں، ڈوبتے ہوئے بحری جہازوں کو بچانے، بحری جہازوں میں لگی  آگ کو بجھانے، سمندری قزاقوں کے خلاف آپریشن اور بحری جہازوں پر فضائي حملوں کو ناکام بنانے کی مشقیں شامل تھیں ۔     

 بین الاقوامی سمندری تجارت کی سیکورٹی، سمندری ڈاکوؤں کا مقابلہ اور بین الاقوامی آبی گزرگاہوں کو سمندری دہشت گردی سے پاک کر کے، جہازرانی کی سیکورٹی کو یقینی بنانا اس تین ملکی بحری مشقوں کے جملہ اہداف میں شامل تھی ۔

ان تین ملکی بحری مشقوں کے بارے میں چین کے ممتاز سیاسی اور فوجی مبصر، سونگ جونگ پنگ کہتے ہیں کہ "ایران، چین اور روس کو سیکورٹی کے نئے میدانوں میں سہ فریقی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے، بالخصوص جہازرانی کی سیکورٹی میں تعاون  میں اضافہ زیادہ ضروری ہے، کیونکہ بعض ممالک عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے، بین الاقوامی سمندری حدود میں جہاز رانی کو خطرات سے دوچار کر رہے ہیں، اس لئے بین الاقوامی جہاز رانی کی سلامتی میں ان تینوں ملکوں کا تعاون کافی اہمیت رکھتا ہے۔"

بین الاقوامی جہازرانی کی اہمیت  

 بین الاقوامی تجارت میں نقل و حمل  کے تین راستے ہیں؛ فضائي، زمینی اور سمندری، اور ان تینوں راستوں میں سے سب سے سستا اور کم خرچ سمندری نقل وحمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آبی گزرگاہوں کو ہر دور میں اہمیت حاصل رہی ہے۔ حتی اس دور میں بھی جب تجارتی حتی مسافر بحری جہازوں پر بھی سمندری ڈاکوؤں کے حملے کا خطرہ زیادہ رہتا تھا۔ دور دراز کے علاقوں تک تجارتی سامان پہنچانے کے لئے، زیادہ تر سمندری راستے کا ہی انتخاب کیا جاتا تھا۔

فضائي نقل وحمل پر اخراجات زیادہ آتے ہیں اس لئے ہوائي جہاز سے درآمد کی جانے والی اشیا کی قیمتیں لاگت زیادہ آنے کی وجہ سے  کافی  بڑھ جاتی ہیں۔ زمینی نقل وحمل اگرچہ سستا ہے لیکن اس کے اپنے مسائل اور پیچیدگیاں ہیں۔

دو ایسے پڑوسی ملکوں کے درمیان جن کی زمینی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہوں، زمینی نقل و حمل آسان بھی ہوتا ہے اور سستا بھی لیکن اگر ان کے درمیان کوئي تیسرا ملک حائل ہوتو زمینی راستے سے تجارتی سامان کی سپلائی اور منتقلی  کا انحصار تینوں ملکوں کے روابط کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ اگر درآمد اور برآمد (امپورٹ اوراکسپورٹ) کرنے والے دونوں ملکوں میں سے کسی بھی ملک سے تیسرے ملک کے روابط اچھے نہ ہوں تو زمینی نقل و حمل  تقریبا نا ممکن ہو جاتا ہے، اور اگر دونوں ملکوں سے اس کے روابط اچھے ہوں تب بھی ٹراںزٹ ٹیکس کی وجہ سے نقل و حمل پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔

بنابریں بین الاقوامی تجارت میں سمندری نقل وحمل پر کمترین اخراجات آتے ہیں اس لئے  بین الاقوامی تجارت کے فروغ میں سمندری نقل و حمل کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

بین الاقوامی سمندری حدود میں جہازرانی کی آزادی

سنہ ۱۹۹۳ میں پاس ہونے والے اقوام متحدہ کے سمندری قوانین کے  کنونشن کے مطابق ساحل سے سمندر کے اندر بارہ سمندری میل( nautical miles) تک کا علاقہ ساحلی ملک کی قلمرو میں آتا ہے اور اس کے بعد سمندر کی بین الاقوامی حدود شروع ہوجاتی ہیں۔

(البتہ انیس سو ترانوے کے سمندری قوانین کے کنوینشن کے مطابق دوسو سمندری میل تک کا علاقہ ساحلی ملک کا مخصوص اقتصادی زون شمار ہوتا ہے جس  میں موجود سبھی قدرتی ذخائر پر اس کو قانونی حق حاصل ہوتا ہے اور اس زون میں دیگر اقتصادی اور تحقیقاتی سرگرمیاں بھی وہی انجام دے سکتا ہے۔ دوسرے ممالک اس زون کے قدرتی ذخائر پر کوئی حق نہیں رکھتے اور نہ ہی ساحلی ملک کی اجازت کے بغیر کوئی اقتصادی اور تحقیقاتی سرگرمی  انجام دے سکتے ہیں۔)

بین الاقوامی سمندری حدود میں (جن میں ساحل سے سمندر کے اندر دوسو سمندری میل کا وہ علاقہ بھی شامل ہے جو ساحلی ملک کا اقتصادی زون تسلیم کیا گیا ہے) پُر امن  جہازرانی ہر ملک کا حق ہے اور کسی بھی ملک کو دوسرے ملکوں کے جہازوں کی رفت و آمد روکنے یا اس میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں ہے، حتی اقتصادی سمندری زون میں بھی اقتصادی اور تحقیقاتی سرگرمیوں کے بہانے کسی بھی ملک کو  پر امن جہازرانی میں رکاوٹیں ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئي ہے اور تجارتی جہازرانی میں رکاوٹ ڈالنا اور تجارتی جہازوں کو روکنا اور اس  کا مال ضبط کرنا سمندری ڈکیتی کے زمرے میں آتا ہے۔ 

بین الاقوامی جہازرانی کو درپیش اہم ترین خطرات

 سمندری نقل و حمل اور جہازرانی کو تین طرح کے خطرات لاحق ہوتے ہیں؛ ایک تو معمول کے سمندری حادثات جیسے طوفان اور سونامی وغیرہ، جہاز میں آگ لگ جانا، یا سمندری چٹانوں سے جہازوں کا ٹکرا جانا وغیرہ ۔

دوسرا خطرہ سمندری ڈاکوؤں کی طرف سے ہوتا ہے جو عام طور پر تجارتی بحری جہازوں کو لوٹ لیا کرتے ہیں۔

اور تیسرا خطرہ، بین الاقوامی سمندری حدود کو اپنی جاگیر سمجھنے والی بڑی سامراجی طاقتوں بالخصوص امریکا کی طرف سے لاحق ہوتا ہے جو سبھی بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنے مخالفین کے تجارتی بحری جہازوں کو ضبط کر لیا کرتا ہے۔

ادھر کچھ برسوں سے بین الاقوامی سمندری حدود میں امریکا اور برطانیہ کی جدید سمندری ڈکیتی نے بین الاقوامی بحری تجارت اور پر امن جہاز رانی کے لئے کافی خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔

اکتوبر 2021 کے اوائل میں امریکا نے بحیرہ عمان میں ایران کے تیل بردار بحزی جہاز پر قبضہ کرلیا اور اس کا تیل ایک دوسرے آئل ٹینکر میں منتقل کر کے لےجا رہا تھا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سپاہیوں نے ایک خصوصی آپریشن کے تحت ہیلی بورن کر کے آئل ٹینکر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ امریکی جنگی جہازوں نے اس آئل ٹینکر کو واپس لینے کی کوشش کی لیکن ایران کے فولادی عزم اور اسکے جنگی جہازں کا سامنا ہونے کے بعد پسپائی اختیار کی اور وہ پاسداران انقلاب کے سپاہیوں سے اس کو واپس نہ لے سکے۔   

دو سال قبل برطانیہ نے جبل الطارق میں ایران کے ایک تیل بردار بحری جہاز کو روک لیا تھا۔ جبل الطارق کی مقامی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ یہ بحری جہاز شام کے لئے تیل لے جارہا تھا اور چونکہ شام کے لئے تیل کی سپلائي پر پابندی ہے، اس لئے برطانیہ کے جنگی بحری جہاز نے اس کو روک لیا۔  پھر جب اسکے بعد آبنائے ہرمز میں ایک ایرانی تجارتی جہاز کو ٹکر مار کے فرار کرتے ہوئے ایک برطانوی آئل ٹینکر کو ایران نے روکا تو برطانیہ نے ایران کے تیل بردار بحری جہاز کو چھوڑ دیا۔

ان واقعات  سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ جیسے نام نہاد مہذب ممالک کس بے شرمی سے سمندری ڈکیتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کی کھلی سمندری دہشت گردی کے علاوہ بین الاقوامی سمندری حدود میں تیل بردار اور تجارتی بحری جہازوں پر بحری ‍قزاقوں کے حملے کی خبریں بھی آئے دن ملتی رہتی ہیں۔          

ان حالات کے پیش نظر ایران، روس اور چین کی تین ملکی بحری مشقوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

ایران روس اورچین کی مشترکہ بحری مشقوں کی اہمیت

ایران، روس اور چین کی مشترکہ بحری مشقوں میں بین الاقوامی سمندری تجارت اور پر امن جہازرانی کو لاحق تینوں خطرات سے نمٹنے کی مشقیں انجام دی گئیں۔

ایران، روس اور چین نے جس بین الاقوامی سمندری علاقے میں پر امن جہازرانی کو یقینی بنانے کے لئے مشقیں انجام دی ہیں، وہ جہازرانی کے نقطۂ نگاہ سے دنیا کا اہم ترین سمندری علاقہ شمار ہوتا ہے۔ یہ مشقیں شمالی بحرہند اور بحیرہ عمان کے اس علاقے میں انجام دی گئيں جس میں تین اہم ترین بین الاقوامی آبی گزرگاہیں، آبنائے ہرمز، آبنائے باب المندب اور آبنائے ملاکا واقع ہیں جنہیں  طلائي مثلث (GOLDEN TRIANGLE) کہا جاتا ہے.   

ایران، روس اور چین تینوں ملکوں کی بین الاقوامی تجارت کا بڑا حصہ سمندری راستے سے ہی انجام پاتا ہے۔ ایران کے تیل اور پیٹرولیئم مصنوعات کی برآمدات سمندر کے راستے انجام پاتی ہیں جبکہ روس کی بین الاقوامی تجارت اور چین کی تیل کی درآمدات اور خارجہ تجارت بھی سمندر کے راستے ہی انجام پاتی ہے۔ اس لئے ان تینوں ملکوں کو بین الاقوامی جہازرانی کی سیکورٹی کی اہمیت معلوم ہے۔

ایران کے ساتھ روس اور چین کی مشترکہ بحری مشقیں جہاں تینوں ملکوں کی نگاہ میں جہازرانی کی سیکورٹی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں وہیں اس بات کو بھی ثابت کرتی ہیں کہ دو مسلمہ عالمی طاقتیں، یعنی روس اور چین یہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی سیکورٹی منصوبوں میں ایران کی شمولیت ضروری ہے اور ایران کی شمولیت کے بغیر سمندری سیکورٹی پٹی مکمل نہیں ہو سکتی۔

 یہ تین ملکی بحری مشقیں یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ علاقائي اور بین الاقوامی سطح پر ایران اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ نہ اس کی ناکہ بندی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی عالمی معاملات اور بین الاقوامی سیکورٹی کے امور میں اس کو الگ تھلگ کیا جاسکتا ہے۔

یہ تین ملکی سمندری مشقیں مغربی سامراجی طاقتوں بالخصوص امریکا اور برطانیہ کے لئے اس انتباہ کا درجہ بھی رکھتی ہیں کہ اب اس خطے میں ان کی سمندری ڈکیتی کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا، ان کے لئے بہتر ہے کہ اس خطے میں بین الاقوامی  جہازرانی  کے لئے خطرہ بننے والے اشتعال انگیز اقدامات سے پرہیز کریں، اس لئے کہ پورا شمالی بحر ہند اور بحیرہ عمان اس خطے کی  تین بااثر قوتوں، ایران، روس اور چین کے سمندری  سیکورٹی پٹی کا حصہ ہیں اور یہ تینوں ممالک اس سمندری سیکورٹی پٹی میں بین الاقوامی جہازرانی کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے پر قادر ہیں۔

(مقالہ نگار: ڈاکٹر محمد مہدی شرافت؛ ڈائریکٹر اینڈ سینیئر چیف ایڈیٹر، سحر نیوز)

 

ٹیگس