صدر ایران کا دورۂ ماسکو، علاقائی استحکام اور مغربی تاناشاہی کو لگام دینے کی جانب ایک اہم قدم (مقالہ)
صدر ایران ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کی دعوت پر، دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو پہنچے ہیں۔ ان کا یہ دورہ علاقائی اور بین الاقوامی تغیرات اور حالات کے پیش نظر کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں انجام پا رہا ہے کہ امریکی فوج کے ذلت آمیز فرار کے نتیجے میں افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلی اور درپیش مسائل، مغربی ایشیا کی صورتحال، جنگ یمن میں طاقت کے توازن میں تیز رفتار تغیر، پابندیوں کے خاتمے کے لئے ویانا مذاکرات اور عالمی حالات، تہران ماسکو تعاون میں زیادہ سے زیادہ فروغ کے متقاضی ہیں۔
ایران اور روس کے روابط اور مختلف علاقائي اور عالمی معاملات میں ان کے باہمی تعاون کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے، ان کی حیثیت اور پوزیشن پر ایک سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔
1979 میں وجود میں آنے والا نیا ایران
گیارہ فروری 1979 کو لاشرقیہ و لاغربیہ کی بنیاد پر نیا ایران دنیا کے افق پر ظاہر ہوا۔ دنیا کی مشرقی اور مغربی، یعنی امریکا اور سوویت یونین، دونوں سپر طاقتوں کی نفی اس کا بنیادی عنصر تھا۔ نئے ایران کا یہی وہ بنیادی عنصر تھا جو دنیا کے لئے حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ہی، عالمی تجزیہ نگاروں اور ماہرین کے اذہان میں اس کی بقا کے بارے میں شکوک و شبہات بھی پیدا کر رہا تھا۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں یہ تصور بھی محال تھا کہ دونوں سپر طاقتوں میں سے کسی ایک سے وابستگی کے بغیر کوئي ملک اور نظام باقی بھی رہ سکتا ہے۔ اگرچہ ناوابستہ تحریک کے نام سے ایک تنظیم اس وقت بھی موجود تھی لیکن اس تحریک کے اراکین کتنے ناوابستہ تھے یہ محتاج بیان نہیں ہے۔
امریکا اور سوویت یونین نے دنیا کو آپس میں تقسیم کر رکھا تھا اور دنیا کا ہر ملک مشرقی بلاک میں تھا یا مغربی بلاک میں۔ ان حالات میں دونوں سپر طاقتوں کی نفی کی بنیاد پر ایران میں اسلامی نظامِ حکومت قائم ہوا تو دنیا کی دونوں سپر طاقتیں، متحد ہو کے اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئيں۔
چنانچہ عراقی ڈکٹیٹر صدام کے ذریعے جو جنگ مسلط کی گئي اس میں دونوں سپر طاقتیں نئے ایران کے مقابلے میں تھیں۔ ایران پر انواع و اقسام کی پابندیوں کا اعلان کیا گيا، اقتصادی ناکہ بندی کی گئي، باہر سے جنگ مسلط کرنے کے ساتھ ہی ایران کے اندر ایم کے او کے منافق دہشت گردوں جیسے زرخریدوں کے ذریعے دہشت گردی کا بازار بھی گرم کیا گیا۔
راقم اس وقت انقلاب ایران کے بعد کی تاریخ دوہرانا نہیں چاہتا بلکہ صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ آج ایران کو دنیا میں جو حیثیت اور پوزیشن حاصل ہے، وہاں تک پہنچنے کے لئے اس کو کن مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ مسلط کردہ جنگ، دہشت گردی، سخت ترین اقتصادی ناکہ بندی اور انواع و اقسام کی پابندیوں کے باوجود دونوں سپر طاقتیں مل کے نئے ایران کو اس کے راستے سے ہٹا سکیں نہ شکست دے سکیں۔
پھر اسکے بعد بیسویں صدی کا آخری عشرہ شروع ہونے سے پہلے ہی نئے ایران کی مخالف طاقتوں کی شکست اور ہزیمت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بیسویں صدی کا آخری عشرہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کا عشرہ تھا۔ جس کے بعد دنیا نے یقین کر لیا کہ اب یک قطبی نظام چلے گا اور دنیا میں وہی ہوگا جو امریکا چاہے گا۔
لیکن نیا ایران امریکا کی مرضی کے خلاف اپنے راستے پر چلتا رہا۔ مسلط کردہ جنگ ختم ہونے کے بعد ایران نے تعمیر نو کے ساتھ ہی اقتصادی اور معیشتی بنیادوں کے استحکام پر تیز رفتاری کے ساتھ کام کیا اور سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف میدانوں میں حیرت انگیز ترقی کرکے دنیا پر ثابت کر دیا کہ قوم میں اگر عزم جزم ہو اور "یقیں محکم" اور"عمل پیہم ہو" تو تن تنہا کسی کی مدد اور تعاون کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے اور دنیا کی کوئي بھی طاقت اس کی ترقی و پیشرفت کو نہیں روک سکتی۔
نئے ایران کی توانائي اور پوزیشن کو سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اس نے پابندیوں اور ناکہ بندی کے دور میں تن تنہا سائنس و ٹیکنالوجی کے دیگر میدانوں میں خود کفالت کے ساتھ ہی پُرامن جوہری میدان میں بھی وہ مرحلہ سر کر لیا کہ دنیا کی چھے بڑی طاقتوں نے اس کے ساتھ خود اس کی شرائط پر معاہدہ کیا۔ (اگر یہ معاہدہ ایران کی شرائط کے بجائے امریکا کی شرائط پر ہوا ہوتا تو ٹرمپ اس معاہدے سے کبھی نہ نکلتے اور آج ویانا میں وہی طاقتیں ایران کی شرائط پر اس کے ساتھ مذاکرات نہ کر رہی ہوتیں۔)
سوویت یونین کا خاتمہ اور روس کا احیا
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد روس پوری طرح امریکا کے سامنے جھک گیا اور دنیا یک قطبی (unipolar) ہو گئی۔ بورس یلتسین نے روس کو امریکا کی جھولی میں ڈال دیا تھا اور امریکی حلقہ بگوشوں میں روس کی شمولیت میں کوئي کسر نہیں بچی تھی کہ ولادیمیر پوتن نے انیس سو ننانوے میں ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور روس کو دوبارہ زندہ کرنے کی مہم شروع کی۔
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بھی روس ایک بڑی فوجی طاقت تھا، بس اس کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت تھی جس کو ااپنی فوجی طاقت کے ساتھ ہی یک قطبی دنیا کے خطرناک نتائج کا ادراک بھی ہو۔ ولادیمیر پوتن نے اپنے پہلے دو صدارتی ادوار میں ثابت کر دیا کہ وہ روس کو ایک بار پھر ایک اہم عالمی کھلاڑی میں تبدیل کر کے، امریکا اور یورپ کی عسکری تنظیم نیٹو کی توسیع پسندی کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سوویت یونین کا اشتراکی نظام حکومت قصۂ پارینہ بن کر تاریخ کے کوڑے دان میں جاچکا تھا اور بورس یلتسین نے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ ملک و قوم اور روسی عوام کی غیرت و حمیت سب کچھ امریکا اور نیٹو کے پاس گروی رکھ دینے کے مترادف تھا جو کسی بھی غیرت دار روسی کو منظور نہیں ہو سکتا تھا۔
ولادیمیر پوتن کے سامنے دو بنیادی مہم تھیں، ایک ملک کی معیشت کے سدھار اور اقتصادی بنیادوں کے استحکام کے ذریعے عوام کے اعتماد کی بحالی اور دوسری بچے کھچے پرانے حلیفوں کو دوبارہ اپنی طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ نئی بنیادوں پر نئے حلیفوں کی تلاش۔
ولادیمیر پوتن کا پہلا دور صدارت روس کے مردہ پیکر میں روح پھونکنے، اندرونی مشکلات سے نمٹنے، معیشت کو راستے پر لانے، اسٹریٹیجک اسٹرکچر کی بنیادوں کو دوبارہ کھڑا کرنے اور عوام کا اعتماد بحال کرنے میں گزر گیا۔
دوسرے دور صدارت میں روس کے احیا کے لئے ان کے منصوبوں کے خدوخال نظر آنے لگے تھے لیکن دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد پوتین قانونی طور پر دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں صدارتی امیدوار نہیں بن سکتے تھے۔ بنابریں دیمتری میدویدف دوہزار آٹھ کے الیکشن میں صدر منتخب ہوئے اور ولادیمیر پوتین نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اسی وقت کافی ہنگامہ اور شوروغل مچایا اور چار سال بعد 2012 میں جب پوتن دوبارہ صدارتی امیدوار بنے تو امریکا اور یورپ کی مخالفت شدید تر ہو گئي اور انہوں نے روس کی سیاست سے پوتن کو الگ کرنے کی ناکام کوششوں میں اپنی پوری توانائي صرف کر دی۔ لیکن روسی عوام نے ولادیمیر پوتن کو دوبارہ صدر منتخب کر کے امریکا اور یورپ کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔
ایران روس روابط
ایران اور روس کے روابط کی تاریخ نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے لیکن حالیہ برسوں میں بہت سے علاقائی اور عالمی معاملات میں دونوں ملکوں کے موقف میں ہم آہنگی اور قریبی تعاون نے تاریخ رقم کی ہے۔ خاص طور پر دوسرے ہزارہ کے پہلے اور دوسرے عشرے میں اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور میں ایران اور روس نے باہمی تعاون کا کامیاب تجربہ کیا ہے جن میں بحران شام اور داعش کی سرکوبی میں تہران اور ماسکو تعاون قابل ذکر ہے۔ اس تعاون نے اس انتہائی خطرناک اور گھناؤنی سازش کو نقش بر آب کر دیا جو امریکا اور اسرائیل نے چند رجعت پسند عرب حکومتوں کے تعاون سے تیار کی تھی۔
البتہ داعش کے نام سے جو فتنہ امریکا اور اس کے مغربی اور عرب اتحادیوں نے کھڑا کیا تھا، اس کا ہدف صرف شام اورعراق نہیں تھے بلکہ پہلے مرحلے میں داعش کی نام نہاد خلافت کی قلمرو میں پورے خطے کو شامل کرنے کا منصوبہ تھا اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو، دوسرے مرحلے میں امریکا کی ایک ایسی دہشتناک پراکسی فورس کی تیاری مد نظر تھی جس کے ذریعے پوری دنیا حتی یورپ کو بھی امریکی مطالبات ماننے کے لئے بلیک میل کیا جاتا۔
(فی الحال راقم اس موضوع کو چھیڑ کر اپنے اصل موضوع، ایران روس تعاون سے ہٹنا نہیں چاہتا، اس پر کسی مناسب موقع پر تفصیل سے بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے)
روس کو ایران کی ضرورت
پوتین کو دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ’’روس زندہ ہے اور اس کو نظر انداز کر کے اور کنارے لگا کے، کوئي بھی عالمی کھیل کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘، ایک موقع کی ضرورت تھی اور یہ موقع روس کو ایران نے شام میں فراہم کیا۔
ایران مغربی ایشیا میں امریکا اور نیٹو کے منصوبوں کی حقیقت سے واقف تھا۔ ایران خوب جانتا تھا کہ شام کو اسرائيل کے مقابلے میں محاذی ملک ہونے کی سزا دی جا رہی ہے اور دمشق حکومت کا سقوط در اصل غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں استقامتی محاذ کی شکست ہوگی۔ اس لئے جب شام کو بحران کے حوالے کیا گيا اور بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی بات ہونے لگی، تو ایران کی قیادت نے اعلان کر دیا کہ موجودہ دمشق حکومت اس کی ریڈ لائن ہے اور تہران بشار اسد کی حکومت کو ہرگز گرنے نہیں دے گا۔
ایران کا یہ ٹھوس موقف سامنے آنے کے بعد روس نے بھی بشار اسد کی حکومت کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔ روس نے اپنے فوجی بھیجے اور امریکا، یورپ اور ان کی اتحادی رجعت پسند علاقائي حکومتوں کے تیار کردہ تکفیری دہشت گردوں کے خلاف باضابطہ فوجی آپریشن شروع کر دیا۔
ایران نے اپنے فوجی مشیر بھیجے، جنہوں نے شام میں جیش الشعبی کے نام سے عوامی رضا کار فورس تیار کی جس نے استقامتی محاذ کے سپاہیوں کے ساتھ داعش کے خلاف جنگ میں شامی فوج کی بھرپور معاونت کی۔ اس طرح ایران اور روس دونوں نے مل کے شام اور عراق دونوں ملکوں میں امریکا اور نیٹو کے منصوبے کو نقش برآب کر دیا۔ در اصل شام میں ایران اور روس، دونوں نے ایک دوسرے کو سہارا دیا اور ان کے باہمی تعاون کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ شام میں تعاون کے کامیاب تجربے کے بعد دونوں ملکوں کی قیادتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ اس خطے میں امریکا اور نیٹو کے مذموم منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے ایران روس کا تعاون ضروری ہے جس کے پورے خطے کے لئے دوررس مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
ایران یک قطبی نظام کا مخالف
ایران شروع سے ہی دنیا کے یک قطبی نظام میں تبدیل ہوجانے کا مخالف تھا۔ ایران نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ یک قطبی (unipolar) نظام دنیا کے لئے خطرناک ہے اور اس کے مقابلے میں کثیر قطبی نظام کی ضرورت ہے۔ یک قطبی نظام کی خطرناک کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے ایران نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد سے ہی کام شروع کر دیا تھا۔ ایران نے روس اور چین سے اپنے روابط مستحکم کرنے کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
اس کے علاوہ ایران اسلامی دنیا کو متحد کر کے ایک تیسرے بلاک کے لئے بھی کوشاں رہا ہے۔ ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ اسلامی دنیا بالخصوص مغربی ایشیا کے ممالک بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافی مسائل حل اور باہمی تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔ اس طرح خطے میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے اور باہمی تعاون کا فروغ ایک مضبوط اسلامی بلاک کی راہیں بھی ہموار کر سکتا ہے۔
لیکن اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ابھی طویل راستہ طے کرنا ہے۔ فی الحال اس خطے اور ایشیا میں امریکا اور نیٹو کی جارحانہ مداخلت کا راستہ بند کرنے کے لئے ایک ایسے مضبوط ایشیائي بلاک کی ضرورت ہے جس میں کوئی بھی طاقت دوسروں پر حکمرانی کی فکر میں نہ ہو بلکہ سبھی، پورے ایشیا کو امریکا اور نیٹو کے اثرورسوخ سے پاک کر کے اجتماعی ترقی و پیشرفت کے بارے میں سوچیں۔
روس، چین، پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ہر میدان میں روابط اور تعاون کے فروغ اور مختلف علاقائي تنظیموں کی تقویت کے لئے ایران کی مساعی کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
(مقالہ نگار: ڈاکٹر محمد مہدی شرافت، ڈائریکٹر اینڈ سینیئر چیف ایڈیٹر، سحر نیوز)