بابری مسجد مقدمے کا معاملہ سپریم کورٹ کے مشورے پر ملا جلا ردعمل
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کے مقدمے سے وابستہ فریقوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دوستانہ طریقے سے مل بیٹھ کر معاملے کا حل نکالیں۔
سپریم کورٹ کے اس مشورے پر معاملے سے جڑے فریقوں کا مختلف ردعمل سامنے آیا ہے- بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈر سبرا منیم سوامی نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے پر جلد سماعت کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا ہے کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اس لئے بہتر ہو گا کہ اس تنازعے سے وابستہ سبھی فریق، اس کو باہمی رضامندی سے حل کریں- چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ اگرمتعلق فریق چاہیں تو عدالت، اس میں مداخلت کرنے کو تیار ہے-
سپریم کورٹ کے اس مشورے کا جہاں ہندوستان کے مختلف حلقوں نے خیر مقدم کیا ہے وہیں مقدمے کے کچھ فریقوں نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے- بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں پہلے ہوئی بات چیت ناکام رہی ہے اس لئےعدالت سے باہر اس کا کوئی حل ممکن نہیں ہے-
بھارتیہ جنتاپارٹی کے سینیئر لیڈر اور رام مندر تحریک کے بانی لال کرشن اڈوانی نے سپریم کورٹ کے مشورے کو اہم قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ سبھی فریقوں کو اس سلسلے میں عام اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا- جبکہ مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے کہا ہے کہ بی جے پی لیڈر سبرا منیم سوامی نے جان بوجھ کر عدالت کو یہ اطلاع نہیں دی ہے کہ اس معاملے پر ماضی میں چھے بار بات چیت ہو چکی ہے لیکن اب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ کسی سے بھی، بات چیت نہیں کرے گا اور معاملے کا حل عدالت میں نکلے گا-
معروف مسلم مذہبی مولانا راشد فرنگی محلی نے بھی سپریم کورٹ کے مشورے کو صحیح بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے مشورے کا احترام کرتے ہیں البتہ مسلم پرسنل بورڈ چاہتا ہے کہ معاملے کا حل عدالت کے ذریعے نکلے-
بی جے پی کے ایک اور لیڈر ونئے کٹیار نے سپریم کورٹ کے مشورے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عدالت کا مشورہ ہے فیصلہ نہیں ہے- مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سیتا رام یچوری نے کہا ہے کہ مسئلہ بات چیت سے حل نہیں ہو گا جبکہ کانگریس نے کہا ہے کہ رام مندر کا معاملہ، بی جے پی کے لئے مذہبی نہیں بلکہ سیاسی معاملہ ہے اور بی جے پی اس کا حل چاہتی ہی نہیں-