ہندوستان میں کورونا کا بحران، حکومت کو ماسک کے بجائے ہتھیار چاہئیں! (دوسرا حصہ)
جمعرات کے روز جس معاہدے کو حتمی شکل دی گئی وہ بنیادی طور پر فروری 2018 سے متعلق ہے اور یہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے کئے گئے ہتھیاروں کے متعدد معاہدوں کا ایک حصہ ہے۔
حالانکہ ہندوستان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہندوستانی فوج کو ہتھیاروں کی بے حد ضرورت ہے اور اس سے فوجیوں میں خود اعتمادی بڑھے گی۔
تاہم دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ شدید اور ایک بڑے بحران کے وقت ہتھیاروں کو ترجیح دینا، بی جے پی حکومت کی جانب سے ہندوستان کو ایک سیکورٹی ریاست میں بدلنے کا وسیع منصوبے کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ مودی کے پاس اس بحران سے نمٹنے کے لئے کوئی راہ حل نہیں ہے، ہمارے ڈاکٹرز کے پاس کافی مقدار میں حفاظتی وسائل نہیں ہیں، ہمارے پاس ماہرین کی جانب سے پیش کئے گئے مشوروں کے مطابق کورونا کا ٹیسٹ کرنے کی بھی توانائی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ہندوستان میں کورونا کا بحران، حکومت کو ماسک کے بجائے ہتھیار چاہئیں! (پہلا حصہ)
اسی طرح، ہندوستانی کمیونیسٹ پارٹی کی رہنما کویتا کرشنن کا کہنا تھا کہ حکومت نے ابھی تک وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اُن غریبوں اور مزدوروں کے لئے کسی طرح کے امدادی پیکج کا اعلان نہیں کیا ہے جو ہر دن کماتے ہیں اور کھاتے ہیں اور اس کے بجائے حکومت ہتھیاروں کی خریداری میں زیادہ دلچسپی دکھا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر روز کما کر کھانے والے مزدوروں کو اچانک اپنے گاؤں اور آبائی وطن لوٹنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، جو جاتے ہوئے شاید وائرس سے متاثرین کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ہوں اور اس طرح سے گاؤں میں رہنے والوں کی زندگی کو بھی خطر سے دوچار کر دیا گیا۔
حالیہ برسوں میں ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں کافی مضبوطی دیکھنے میں آئی ہے، خاص طور پر مودی اور نتن یاہو کے دور اقتدار میں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت، تعلقات کی بنیاد ہے یا مسلمانوں کی دشمنی یا پھر دونوں؟
ماخوز از ہندوستانی ذرائع ابلاغ:
*سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے*