سرینگر میں لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس کی فائرنگ میں جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
اے پی کے مطابق، جاں بحق افراد کے ورثاء نے پولیس سے ان افراد کی لاشیں حوالے کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ انکی تدفین کر سکیں۔
عینی شاہدین کے مطابق، پولیس نے سرینگر میں مظاہرے کے مقام کی لائٹیں بند کرنے کے بعد مظاہرین پر دھاوا بول دیا اور مظاہرین کو گھسیٹ کر پولیس گاڑی میں ڈال دیا اور اس دوران مقتولین کے اہل خانہ سخت سردی میں نعرے بازی کرتے رہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ متأثرین میں سے ایک شخص نے پولیس کی بندوق کی نلی کا رخ اپنے سینے کی طرف کرتے ہوئے کہا ”مجھے گولی مارو دہشت گردو“۔
قابل ذکر ہے کہ پیر کی شب سرینگر میں پولیس کی فائرنگ میں دو شہری مارے گئے تھے۔
عینی شاہدین اور مقتول کے ورثاء کا کہنا ہے کہ اس شاپنگ سینٹر کے مالک محمد الطاف بھٹ اور اس سینٹر پر کام کرنے والے مدثر احمد، ہندوستانی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ میں مارے گئے۔
ہندوستانی پولیس افسروں کا دعوی ہے کہ مقتول افراد، علیحدگی پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔
رپورٹ کے مطابق، پولیس نے محمد الطاف بھٹ اور مدثر احمد کی لاش انکے گھر والوں کے حوالے کرنے کے بجائے رات کے اندھیرے میں انہیں خاموشی کے ساتھ زمین میں دبا دیا تھا جس کے باعث مقتولین کے رشتہ دار نہ تو ان کی باضابطہ تدفین نہ کر سکے اور نہ تدفین میں شریک ہو سکے۔ اس واقعے کے بعد کشمیر کی پی ڈی ایف پارٹی نے پولیس پر قتل کے الزام کی فی الفور تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو ایک بار پھر نظربند کردیا گیا ہے۔ یہ اطلاع انہوں نے خود ٹویٹ کے ذریعہ دی جسکے ساتھ انہوں نے مقفل دروازوں اور سکورٹی اہلکاروں کی تصاویر بھی شیئر کی ہیں۔