یکساں سول کوڈ ملکی آئین پر حملہ ہے، اس سے تمام اقوام اپنی شناخت کھو دیں گی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) پر رائے پیش کرنے کے لئے مقررہ مدت میں اضافے کا خیرمقدم کرتے ہوئے تمام مسلمانوں سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اُس کے خلاف اپنی رائے درج کرانے کی اپیل کی ہے۔
سحر نیوز/ہندوستان: مولانا سیف اللہ رحمانی نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں امید ظاہر کی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سلسلہ میں اپنی رائے پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک مختلف مذاہب، تہذیبوں، روایتوں اور رسوم و روایات کا حامل ہے، یہی تنوع اس کی پہچان اور خوبصورتی ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں اس کو عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کی، جنگ آزادی کے اُن سپہ سالاروں اور ملک کے معماروں کے ذہن میں بھی اس ملک کا یہی تصور تھا کہ یہاں مختلف قومیں اپنی اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ مل جل کر رہیں گی اور اس طرح ہمارا ملک رنگ برنگ پھولوں کا ایک خوبصورت گلدستہ بنا رہے گا۔
اُنہوں نے یاددہانی کرائی کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی جی نے گول میز کانفرنس لندن انیس سو اکتیس میں پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ مسلم پرسنل لا کو کسی بھی قانون کے ذریعہ چھیڑا نہیں جائے گا، آزادی سے پہلے بنیادی طور پر کانگریس پارٹی ہی ہندوستانیوں کی نمائندگی کرتی تھی، اس نے انیس و اڑتیس کے ہری پور اجلاس میں صاف طور پر اعلان کیا تھا کہ اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لا میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی، اسی جذبہ کے تحت انیس و سینتیس میں باتفاق رائے شریعت ایپلی کیشن ایکٹ پاس ہوا، جس میں پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ مسلم پرسنل لا کے دائرہ میں آنے والے مسائل کو طے کر دیا گیا اور کہا گیا کہ ان مسائل میں مسلمانوں پر قانون شریعت ہی لاگو کیا جائے گا۔
مولانا سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ملکی دستور کی دفعہ پچیس ایک کے مطابق بھی ہر شہری کو مذہبی عقائد پر قائم رہنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور دفعہ تیرہ دو کی رو سے حکومت کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی، جو دستور میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہو، یا اس میں کچھ کمی کرے۔
مولانا نے یکساں سول کوڈ کو کے حکومتی فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ مذہبی و تہذیبی تنوع کا باقی رہنا ہمارے دستور کا حصہ ہے اور اس کو ختم کرنے کی کوشش صرف کسی ایک طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور اُس کو اپنے حقوق سے محروم کرنا ہی نہیں بلکہ کھلے طور سے ملک کے دستور پرحملہ ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس فیصلے سے جہاں مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں، جینیوں، بدھسٹوں اور دوسری اقلیتوں کی مذہبی شناخت متأثر ہوگی، وہیں دلت اور قبائلی طبقات جو ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی خاص تہذیب اور رسم ورواج کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، وہ بھی اپنی پہچان سے محروم ہو جائیں گے۔
آل انڈیا مسلم پرنل پا بورڈ کے صدر نے اسی طرح یکسان سول کوڈ کے نفاذ کی صورت میں اقلیتوں کو حاصل ریزرویشن کے فوائد کے ختم ہو جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔
قابل ذکر ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے لا کمیشن سے iیکساں سل کوڈ (یو سی سی) کے حوالے سے رائے پیش کرنے کے لئے 6؍ ماہ کی توسیع کا مطالبہ کیا تھا، لیکن لا کمیشن نے صرف دو ہفتوں کا اضافہ کیا ہے۔