10 کے بیان پر ہنگامہ مسلم لڑکیاں لاؤ اور نوکری پاؤ
مایاوتی: مسلم لڑکیوں پر بیان ، مختلف ریاستوں میں نفرت پھیلانے کی کوشش
بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ اور اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے ’10 مسلم لڑکیاں لاؤ اور نوکری پاؤ’ کا بیان دینے والے بی جے پی لیڈر پر سخت تنقید کی ہے۔
سحرنیوز/ہندوستان: مایاوتی نے اسے ہیٹ اسپیچ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اتر پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں فرقہ وارانہ اور ذات پات کی نفرت کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔
مایاوتی نے کہا کہ کچھ ‘مجرم اور سماج دشمن عناصر تبدیلی مذہب اور نام نہاد لو جہاد کی مخالفت کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔
انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ‘مسلم لڑکی لاؤ، نوکری پاؤ’ کے تازہ ترین نفرت انگیز بیان کے ساتھ ساتھ یوپی اور اتراکھنڈ اور دیگر ریاستوں میں بھی تبدیلی مذہب، لو جہاد اور نہ جانے اور کیا کیا نفرت انگیز نام دے کراور اس کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لے کر فرقہ وارانہ اور ذات پات پر مبنی نفرت، عداوت، بدامنی، انتشار اور لوگوں کے جان و مال اور مذہب پر خطرہ بن جانے کا شرارتی عناصر کا یہ زہریلا اور پرتشدد کھیل انتہائی قابل مذمت ہے۔
در اصل بی جے پی کے سابق ایم ایل اے راگھویندر پرتاپ سنگھ نے اتر پردیش کے سدھارتھ نگر میں ایک جلسہ عام کے دوران مبینہ طور پر کہا ہے کہ ‘اگر دو لڑکی گئی ہیں تو کم از کم 10 مسلم لڑکیاں لاؤ،اس کو ہندو بناؤ’۔
اس کے بعدسنگھ نے مجمع میں موجود نوجوانوں سے پوچھا، ’ کتنے نوجوان تیار ہیں، ہاتھ اٹھاؤ‘۔ نوجوانوں نے ہاتھ اٹھاکر اپنی رضامندی ظاہر کی۔
‘دوپر دس سے کم منظور نہیں ہے۔ شادی ہم کرائیں گے۔ اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ جو کوئی لائے گا اسے کھانے پینے لائق نوکری بھی دلائیں گے۔’ بی جے پی کے سابق ایم ایل اے کے اس متنازعہ بیان پر جلسہ عام میں تالیاں گونج رہی تھیں۔
لو جہاد کی اصطلاح سب سے پہلے سناتن پربھات اور ہندو جنجاگرتی سمیتی نے 2009 میں ایک سازشی تھیوری کے طور پر استعمال کی تھی، اور بعد میں اسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد نے اپنالیا تھا۔
سن 2014 کے بعد یہ مختلف ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتوں کا مرکزی ایجنڈا بن گیا۔ اب تک، گجرات، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اور ہریانہ ان اہم ریاستوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس مسئلے پر قانون بنائے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں الیکشن کے دوران بی جے پی کے حامی عناصر اس طرح کے بیانات سیاسی مقاصد کے تحت دیتے ہيں۔