کیا ٹرمپ سے گفتگو کے لئے ایران کو ان کے پرسنل نمبر کی ضرورت ہے؟ / مقالہ
دو دن سے بھی کم وقت میں یہ دوسری بار ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ ایرانیوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں اور ایرانی حکام کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
سی این این نے انکشاف کیا ہے کہ وائٹ ہاوس نے ٹرمپ کا پرسنل نمبر سویٹزرلینڈ کی حکومت کو پہنچایا ہے وہ اسے تہران انتظامیہ کو دے دے جو تہران میں امریکی مفاد کے محافظ کے طور پر کام کرتی ہے ۔
سویٹزرلینڈ کی حکومت نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ایرانی حکام نے اس خواہش کا اظہار ہی نہیں کیا ۔
گزشتہ جمعرات کو امریکی صدر نے نامہ نگاروں کے درمیان ایرانی حکام کو نئے ایٹمی معاہدے کے لئے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی دعوت دی تھی اور یہ دعوی کیا تھا کہ معاہدہ منصفانہ ہوگا۔ بس ایرانی حکام کو اتنا ہی کرنا ہے کہ وہ مجھ سے رابطہ کر لیں ۔
ہمیں نہیں لگتا کہ ایرانی حکام کو ٹرمپ کے پرسنل نمبر کی ضرورت ہے کہ ان سے بات کریں ۔ اگر ایران چاہے گا تو اس ملک کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی یا وزیر خارجہ جواد ظریف پریس کانفرنس کریں گے اور اعلان کر دیں گے کہ وہ امریکا کی مذاکرات کی دعوت کو قبول کرتے ہیں تاہم ایران نے یہ نہیں کیا کیونکہ ایران اپنی واضح شرطوں پر قائم ہے جنہیں دو نکتے میں بیان کیا جا سکتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ ایران پر عائد ساری پابندیاں فورا ختم کی جائیں اور دوسرے یہ کہ امریکا اسی ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹ آئے جس سے وہ باہر نکلا ہے ۔
ٹرمپ مذاکرات کے لئے ایرانیوں کی خوشامد تب کر رہے ہیں جب انہیں یقین ہو چکا ہے کہ دھمکیاں دینے اور جنگی بیڑا بھیجنے سے ایرانی خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں ۔
ٹرمپ نے یہ سارا ڈراما شمالی کوریا کے حوالے سے بھی کیا تھا اور شمالی کوریا کے رہنما سے دو ملاقاتوں میں ٹرمپ کو بری طرح بے عزت ہونا پڑا۔ شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون نے بھی دباؤ قبول کرنے اور غیر مناسب مطالبات کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔
امریکا کی اس طرح کی دھمکیوں سے خلیج فارس کے عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے علاوہ کوئی بھی خوفزدہ ہونے والا نہیں ہے ۔ ٹرمپ نے دس دن میں دوسری بار سعودی عرب کو پھر یاد دلایا کہ امریکا، سعودی عرب کی حفاظت کرتا ہے، سعودی عرب امیر ملک ہے اور اس کے پاس پیسے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں تو اسے چاہئے کہ اس کی قیمت ادا کرے ۔
سابق امریکی صدر جارج بش سینئیر نے 1990 میں جنگ کویت کے بعد عراق کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا ۔ موجودہ امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر نے عراقی وزیر خارجہ طارق عزیز سے جنیوا میں اسی طرح کی گفتگو کی تھی ۔
ایران کی حکومت کی بات کی جائے تو اس کے پاس طویل تجربات ہیں۔ اس کے سامنے لیبیا کی قذافی حکومت کا انجام بھی ہے جس نے امریکا پر بھروسہ کرکے اپنا ایٹمی پروگرام پوری طرح ختم کر دیا تھا، اس کے بعد عراق کی صدام حکومت کا انجام بھی ہے ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رئیل اسٹیٹ کے میدان کے تاجر ہیں ۔ وہ وہاں کے اپنے تجربات عالمی سیاست کے میدان میں استعمال کرنا چاہتے ہیں اس لئے انہیں ایک شکست کے بعد فورا دوسری شکست کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ وہ تاجروں کی طرح بہت ڈرپوک انسان ہیں ۔ ان میں ایران سے جنگ کی ہمت نہیں ہے ۔
ہمیں نہیں لگتا کہ ایران، امریکی دھمکیوں سے ذرہ برابر بھی متاثر ہوگا ۔ ایران اپنی شرطوں پر آخر تک پائمردی کا مظاہرہ کرے گا ۔ اگر امریکا نے ایران پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو ایران کے پاس شام میں تقریبا 2000 اور عراق میں تقریبا 6000 امریکی فوجیوں سمیت متعدد امریکی مفاد کو نشانہ بنانے جیسے متعدد آپشنز ہوں گے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل، امریکا کی کیا مدد کر سکتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ اسرائیل سے نمٹنے کے لئے حزب اللہ لبنان اور جہاد اسلامی ہی کافی ہیں ۔
بشکریہ
عبد الباری عطوان
رای الیوم