ارے صاحب، ایران، عراق جیسا تر لقمہ نہیں ہے + مقالہ
روس کی خبر رساں ایجنسی اسپوتنک نے ایران اور عراق کے درمیان فرق اور امریکا کی غلطیوں کا بہت دقیق جائزہ پیش کیا ہے ۔
فرانس-24 چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا متعدد بہانوں سے عراق میں آزمائے گئے حربوں کو ایران میں بھی استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ حربے، ایران میں موثر ثابت ہو سکتے ہیں ۔
پیرس سے شائع ہونے والے جریدے افریقہ کے ایڈیٹر نے خلیج فارس میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ، وائٹ ہاوس میں جان بولٹن کی موجودگی، جنگ عراق اور صدام کی سرنگونی میں ان کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ ایران، عراق نہیں ہے ۔ عراق، ایران کے خلاف سلوک کا امریکا کے لئے اچھا نمونہ نہیں ہے اور اگر واشنگٹن ایسا سمجھتا ہے تو وہ بہت بڑی غلطی کر رہا ہے۔
ایران اور عراق میں بہت فرق ہے ۔ ایران ایک منظم اور مضبوط ملک ہے جہاں کے عوام میں قوم پرستی بھری ہوئی ہے اور یہ جذبہ، غیر ملکی خطروں کے وقت زیادہ مضبوط ہو جاتاہے۔ یہ نظریہ کم از کم گزشتہ چار عشروں کے دوران ہمیشہ صحیح ثابت ہوا ہے اور ایران- عراق جنگ میں سب نے دیکھا کہ کس طرح ایرانیوں نے اپنی سرزمین کی حفاظت کی ۔
ایران کے خلاف امریکی پابندیاں پوری طرح سے غیر قانونی ہیں کیونکہ یہ پابندیاں نہ تو اقوام متحدہ کے تحت ہیں اور نہ ہی کسی دیگر عالمی ادارے سے اس کو منظوری ملی ہے ۔
حکومت ٹرمپ کبھی ایران کے تیل پر پابندی عائد کرتی ہے، کبھی ایران کے ٹیکسٹائل کو پابندیوں کا نشانہ بناتی ہے جسسے پوری طرح سے واضح ہوتا ہے کہ واشنگٹن، تہران کے حوالے سے سرکوبی کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران کے ساتھ ہوئے ایٹمی معاہدے کو جس چیز نے مسائل میں ڈالا ہے وہ صرف امریکی پابندیاں ہی نہیں ہیں بلکہ اس حوالے سے یورپ کی عدم توانائی اور کمزوری بھی کافی حد تک ذمہ دار ہے ۔
در حقیقت ٹرمپ کا کوئی مشخص موقف نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف وہ ذہنی مرض میں مبتلا ہیں سوائے سعودی عرب کے مسلمانوں کے خلاف۔ اس کی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ ریاض کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت کرتے ہیں اور اسی لئے سعودی عرب کے مسلمان، ان کی نظر میں اچھے ہیں چاہے جتنے برے عمل انجام دیں ۔
ہمارے خیال میں مشرق وسطی میں جنگی بیڑے آبراہم لنکن کو بھیجنا، پروپیگینڈا ہے کیونکہ ٹرمپ تو ایران کے ساتھ مذاکرات کے خواہشمند ہیں ۔