واقعۂ طبس، شیطانِ بزرگ کو قدرت کا زوردار طمانچہ
اب سے چالیس برس قبل امریکہ نے ایران پر فوجی چڑھائی کرنےکی کوشش کی جس میں اسے بری طرح ناکامی ہوئی اور نتیجتاً ساری دنیا میں اسے خفت و رسوائی مول لینی پڑی۔
اب سے چالیس سال قبل 24 اپریل 1980 کو شیطانِ بزرگ امریکا نے تہران میں موجود اپنے جاسوسوں کو چھڑانے کے لئے ایک جارحانہ منصوبہ تیار کیا جس کے تحت اس نے اپنے کئی جدید ترین جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کی مدد سے تہران کا عزم کیا، لیکن جب وہ ایران کے صحرائے طبس میں پہونچے تو وہاں اٹھنے والے ایک ریتیلے طوفان کے سبب تمام امریکی ہیلی کاپٹر ایک دوسرے ٹکرا کر تباہ ہو گئے جبکہ باقی بچے امریکی طیارے پرواز کی پوزیشن میں ہی نہ رہے-
یوں ایران پر امریکا کا حملہ ارادۂ خداوندی سے ناکام ہو گیا اور واشنگٹن کو ذلت آمیز شکست کے بعد دنیا بھر میں رسوائی مول لینا پڑی۔
طبس کے امام جمعہ حجۃ الاسلام سید ابراہیم مہاجریان، ان افراد میں سے ہیں جو واقعۂ طبس کے اولیں شاہدین میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: امریکا کی شرمناک شکست کے دن میں خود وہاں موجود تھا اور میں امریکا کی شکست کے فوراً بعد وہاں پہنچا جہاں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور امریکیوں کی ذلت و خواری کا میں نے قریب سے مشاہدہ کیا۔
وہ کہتے ہیں: میں نے وہاں پہونچ کر دیکھا کہ جنازے خاک پر پڑے ہوئے تھے اور امریکہ کے پیشرفتہ طیارے اور ہیلی کیپٹروں کے ٹکڑے دور دور تک بکھرے ہوئے تھے.
واقعۂ طبس کا تنہا شہید، محمد منتظر قائم
منتظر قائم کویرنامی علاقہ میں پیدا ہوئے ان کے والد کانام شیخ علی اکبر تھا جونہایت شجاع و بہادر آدمی تھے اور ان کا شمار واقعۂ مسجد گوہرشاد(بد حجابی و بے پردگی کے خلاف اعتراض کرنے کی وجہ سے اہل مشہد کا مسجد گوہر شاد میں قتل عام) میں شرکت کرنے والوں میں سے ہوتا تھا۔
محمد منتظر ایسے باپ کے بیٹے ہیں جنہوں نے شجاعت اپنے والد سے وراثت میں پائی۔ فوجی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد انہیں امر بالعروف اور نہی عن المنکر کی غرض سے بھیجا گیا اور وہاں انہوں نے علی الاعلان حکومتِ شاہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا. نتیجہ میں انہیں شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک نے گرفتار کر لیا جس کے سبب انہیں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر جب انہیں آزادی ملی تو انہوں نے دوبارہ شہنشاہی حکومت کے خاتمہ کے لئے نئے انداز میں سر گرمیاں شروع کر دیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ سپاہ پاسداران میں شامل ہوئے اور سپاہ یزد کا قیام عمل میں لانے کے بعد اس کی کمان سنبھالی۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے پہلے صدر بنی صدر نے اپنے وطن کے حق میں خیانت اور امریکی حکومت سے اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کے لئے فوج کو حکم دیا کہ وہ صحرائے طبس میں باقی بچے امریکی طیاروں پر بمباری کر دے۔ اس بمباری کا مقصد یہ تھا کہ امریکی طیاروں میں موجود اہم دستاویزات کو نابود کر دیا جائے تاکہ وہ ایران کی انقلابی فورسز کے ہاتھ نہ لگنے پائیں۔ صحرائے طبس میں خائن بنی صدر کے حکم سے ہونے والی اس بمباری میں محمد منتظر قائم شہید ہو گئے جو اس واقعے میں شہید ہونے والے تنہا فرد تھے۔