ایران کے مقابلے میں امریکہ پھر تنہا، یورپی ٹرائیکا نے امریکہ کو ٹھینگا دکھایا
جامع ایٹمی معاہدے کے رکن تین یورپی ملکوں نے امریکہ کے اس دعوے کے جواب میں کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ بحال ہو گئی ہیں، ایک مشترکہ بیان جاری کر کے سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس کی مکمل پاسداری پر زور دیا ہے۔
جامع ایٹمی معاہدے کے رکن تین یورپی ملکوں، جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے وزرائے خارجہ کے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ آٹھ مئی کو دو ہزار اٹھارہ کو ایٹمی معاہدے نکل چکا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اب ایٹمی معاہدے کا رکن نہیں رہا لہذا ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی تمام پابندیوں کی بحالی کا امریکی دعوی بھی غیر قانونی ہے۔
جامع ایٹمی معاہدے کے باقی ماندہ یورپی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ اس بنیاد پر کیا جانے والے کوئی بھی فیصلہ اور اقدام بھی غیر موثر رہے گا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تمام رکن ملکوں کی مخالفت کے باوجود امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے ہفتے کے روز یہ دعوی کیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی عائد کردہ تمام پابندیاں دوبارہ بحال ہو گئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے یہ دعوی ایسے وقت میں کیا ہے جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوترش نے سلامتی کونسل کے نام ایک خط میں واضح کیا ہے کہ اجماع کے فقدان کی وجہ سے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال کرنے کی امریکی درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھئے: جوہری معاہدے کے حوالے سے سلامتی کونسل کے فیصلے پر عمل کریں گے: اقوام متحدہ
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی سلامتی کونسل کی پابندیاں دوبارہ عائد کرانے کی غرض سے امریکہ کی یک طرفہ کوششوں کے بارے میں کہا کہ امریکہ اور ایک اور ملک کے سوا سلامتی کونسل کے تمام رکن ملکوں نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ واشنگٹن اس اقدام کو تسلیم نہیں کرتے۔
امریکہ یہ سمجھ رہا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو اس کی خواہش اور منشا کے مطابق عمل کرنا چاہیے، اسی وجہ سے کہ واشنگٹن نے ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی عائد کردہ پابندیاں دوبارہ بحال کرنے کے اعلان کے بعد، اپنے غیر قانونی اقدامات کی پیروی نہ کرنے والے ملکوں کے خلاف بھی تادیبی اقدامات کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کے رکن ملکوں نے پابندیوں پر عملدرآمد کے لیے خود کو تیار نہ کیا تو، امریکہ ان کے خلاف اپنے داخلی اختیارات کو استعمال کرے گا۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ ایران کے مقابلے میں اس قدر مجبور ہو گیا ہے کہ وہ پوری دنیا کے ملکوں کو دھمکیاں دینے پر اتر آیا ہے۔امریکہ اور اس کے بعض چھوٹے چھوٹے اتحادی ملکوں کے سوا مشرق و مغرب کی کسی بھی بین الاقوامی طاقت اور حتی سلامتی کونسل کے دیگر رکن ملکوں نے امریکہ کے اس دعوے کو صرف تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے واشنگٹن کے خلاف موقف بھی اختیار کیا ہے۔
درحقیقت امریکہ کو ایران کے خلاف عالمی پابندیوں کے دوبارہ بحال ہونے کے غیر قانونی اعلان پر عملدرآمد کا بوجھ بھی اکیلے ہی اٹھانا پڑے گا جو عالمی سطح پر اسے مزید تنہا کر دے گا۔