بائیڈن انتظامیہ ابھی سرگردانی کا شکار ہے: ظریف
ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جوبائیڈن حکومت تاحال اپنی پالیسیوں کی منصوبہ بندی نہیں کر سکی ہے جبکہ ایران کی پالیسیاں ٹھوس اور مکمل شفاف و واضح ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے چین کے فونیکس نیوز چینل سے خصوصی گفتگو میں امریکہ میں نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایٹمی معاہدے سے متعلق پیدا ہونے والے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پہلے کوئی قدم نہیں اٹھائے گا اور امریکہ خود ایٹمی معاہدے سے باہر نکلا تھا لہذا اسے ہی پہلے اس معاہدے میں واپس لوٹنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکیوں کو ایٹمی معاہدے کے بارے میں کوئی بھی تدبیر اختیار کرنے سے پہلے ایران کے ممکنہ ردعمل پر توجہ دینا چاہئے۔ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے فونیکس کے نامہ نگار کے اس سوال کے جواب میں کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ پہلے ایٹمی معاہدے میں واپس نہیں آئے گا؟ کہا کہ ان کا خیال ہے کہ امریکی ابھی اپنی منصوبہ بند پالیسیاں تیار نہیں کر سکے ہیں اور اسی بنا پر وھائٹ ہاؤس، جوبائیڈن کے مواقف کے بارے میں کئی بار اصلاح کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ امریکہ، ایٹمی معاہدے سے باہر نکلا ہے اور اصولی طور پر اسی ملک کو ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے متعلق اختیار کئے جانے والے اپنے عمل کو ترک اور پابندیوں کی پالیسی کو ختم کرنا ہو گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے، ایران اور امریکہ کی جانب سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی صورت میں ایٹمی معاہدے سے متعلق مذاکرات کے عمل کے ممکنہ طور پر تعطل سے دوچار ہونے کے بارے میں، کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں برتے گا، البتہ ان کا خیال ہے کہ اس بارے میں کوئی تعطل نہیں پایا جاتا۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ امریکی حکمراں ابھی اپنی پالیسیوں پر غور کر رہے ہیں اور ان کے سامنے ایک واضح ہدف موجود ہے جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسیاں غلط اور نادرست رہی ہیں اور اسی بنا پر انھوں نے اس صورت حال سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس صورت حال سے باہر نکلنا ہی اس بات کا متقاضی ہے کہ پابندیوں کو ختم کیا جائے اور ایسے حالات میں ایران کی جانب سے کوئی امتیاز یا مراعات دیئے جانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔
ایرانی حکام نے بارہا تاکید کی ہے کہ انھوں نے مذاکرات کی میز کو ترک نہیں کیا ہے اور جو مذاکرات کی میز سے اٹھ کر چلا گیا ہے وہ امریکہ ہے۔
ایرانی حکام یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ طور پر علیحدگی کے نتیجے میں خود ایٹمی معاہدے اور ایران کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کے لئے یورپی فریق ملکوں کی جانب سے کوئی موثر قدم نہ اٹھائے جانے کی بنا پر ہی، تہران نے ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھتیس کی بنیاد پر اپنے وعدوں سے پسپائی اختیار کی ہے اور امریکہ اگر ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹتا ہے اور ایٹمی معاہدے کے تمام فریق ممالک اس معاہدے پر عمل کرتے ہیں تو ایران کی جانب سے ان اقدامات کو روکا بھی جا سکتا ہے۔