ایران نہیں، یورپ ایٹمی معاہدے کی پابندی کرے، وزیر خارجہ جواد ظریف
ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ایٹمی معاہدے کے حوالے سے یورپی ٹرائیکا کی وعدہ خلافی پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ، کسی بھی منطق کے تحت ایران ایٹمی معاہدے پر یکطرفہ عملدرآمد کا پابند نہیں ہے۔
تین یورپی ملکوں جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ کونسی منطق کے تحت ایران ان تمام اقدامات پر دوبارہ عملدرآمد کا پابند ہے جن پر وہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے ایک سال بعد تک عمل کرتا رہا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اپنے ٹوئٹ میں استفسار کیا ہے کہ مذکورہ تینوں یورپی ملکوں نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کے مطابق کیا اقدامات انجام دیے ہیں؟اس حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے تصدیق شدہ ایٹمی معاہدے کا مستقبل کیا ہے اور کیا ایٹمی معاہدے کے فریقوں نے اس پر عمل کیا ہے کہ جس سے کسی اور معاہدے کی گنجائش باقی بچی ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی ایران کا مطالبہ نہیں بلکہ پابندیوں کا خاتمہ اور ایران کے غصب شدہ حقوق کی بحالی اہم ہے اور یہ کام امریکہ اور یورپ کی ذمہ داری ہے۔ لہذا ایک بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا مقصد ایٹمی معاہدے کے ذریعے تہران سے مزید مراعات حاصل کرنا ہے جسے کسی بھی منطق کے تحت قبول نہیں کیا جاسکتا۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن بھی ایران کے جائز مطالبات کا جواب دینے کے بجائے ماضی کی غلط پالیسیوں کو آگے بڑھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لہذا اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ چار سال کے بعد امریکہ ایک بار پھر ایٹمی معاہدے کو معطل نہیں کرے گا؟
درحقیقت ایران نے امریکہ اور ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں کی جانب سے وعدہ خلافیوں کے جواب میں اس معاہدے کی شرائط کے مطابق بعض وعدوں پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ جبکہ امریکہ نے یک طرفہ اور غیر قانونی طور پر ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کی اور بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کا سہارا لے کر معطل شدہ پابندیاں دوبارہ عائد کردی تھیں۔ لہذا ایران سمجھتا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے سامنے واحد منطقی راستہ یہ ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے میں واپس آئیں اور ایران سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ کرنے کے بجائے خود اس معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز کریں۔