سفارت کاری کی بلی تھیلے سے باہر آگئی
ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی اور اس سے خود سرانہ طور پر علیحدگی اختیار کرنے والا امریکہ اب آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنر کے اجلاس میں ایران کے خلاف دیگر ملکوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بلومبرگ نیوز نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ نے ایران مخالف پالیسیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دیگر ملکوں سے درخواست کی ہے کہ وہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں میں اضافے کے بارے میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز میں واشنگٹن کی پیش کردہ قرار داد کی حمایت کریں۔
نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے اس قرارداد میں دعوی کیا ہے کہ بقول ان کے اگر ایران ایٹمی معاہدے پر مکمل عملدرآمد شروع کردے تو امریکہ بھی اس سے ملتے جلتے اقدامات کے لیے تیار ہے۔
امریکی سفارت کاروں کی جانب سے بورڈ آف گورنرز کے ارکان میں تقسیم کی جانے والی اس قرارداد کے متن میں ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے تعلق سے واشنگٹن کے ناجائز مطالبات درج کیے گئے ہیں جن میں آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس آئندہ ہفتے کو ہونے والا ہے جس میں ایران کی ایٹمی سرگرمیوں میں اضافے کے معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔
دوسری جانب ہاورڈ کنیڈی اسکول آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایک پرفیسر کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایران سے ایٹمی معاہدے میں واپسی میں پہل کرنے کی درخواست ان کی سفارتی نا پختگی کی علامت ہے۔
پروفیسر اسٹفن والٹ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اس بات کے پیش نظر کہ امریکہ ایٹمی معاہدے سے سن دوہزار اٹھارہ میں نکل چکا ہے جبکہ ایران ہنوز معاہدے کی پابندی کر رہا ہے، بائیڈن انتظامیہ کا ایران سے پہل کرنے کا مطالبہ ان کے دعوے کے برخلاف سفارتی مہارت سے عاری دکھائی دیتا ہے۔
وائٹ ہاوس کے نئے کرایہ دار بارہا کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اسی صورت میں ایٹمی معاہدے می واپس آئے گا جب ایران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ مکمل طور سے عمل کرنے لگے گا۔
حالانکہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ آئی اے ای اے کی رپورٹوں کے مطابق ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ انتظامیہ کی علیحدگی سے پہلے تک ایران اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد کررہا تھا۔
امریکہ کی یک طرفہ اور غیر قانونی علیحدگی کے بعد، معاہدے کے دیگر فریقوں کی جانب سے اپنے وعدوں کی تکمیل کی شرط پر ایران ایٹمی معاہدے کی مکمل پاسدارای کرتا رہا لیکن یورپی ملکوں نے اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ان حالات میں ایران کی قومی سلامتی کی اعلی کونسل نے آٹھ مئی دوہزار انیس کو، یعنی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد اس معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں بتدریج کمی کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ پانچ مئی دوہزار بیس کو ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کے پانچویں اور آخری مرحلے کے اعلان کے ساتھ ختم ہوا۔
ایران کے یہ اقدامات ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے مطابق ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اگر ایٹمی معاہدے کا کوئی بھی فریق اس کی خلاف ورزی کرے تو تہران کو اس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کا حق حاصل ہے۔