ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کا بہترین راستہ تمام وعدوں پر عمل کرنا ہے
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب محید تخت روانچی نے امریکہ کی موجودہ حکومت کو بھی قرارداد بائیس اکتیس اور ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والی حکومت قرار دیا اور کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کا بہترین طریقہ اپنے وعدوں پر عمل کرنا ہے
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب محید تخت روانچی نے الجزیرہ ٹی وی چینل سے گفتگو میں بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی سے متعلق کئے جانے والے واشنگٹن کے خودسرانہ فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جوبائیڈن حکومت نے بارہا اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن ایٹمی معاہدے میں واپس آئے گا مگر اب تک ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکہ کی سابق اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں کسی بھی قسم کی تبدیلی و فرق کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔
انھوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مذاکرات کا کوئی ایجنڈا، اور اس کے نتیجے کا علم ہونا چاہئے، کہا کہ امریکہ کو سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس اور ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے وعدوں پر عمل کرنے کا فیصلہ کرنا ہو گا اس لئے کہ امریکہ کی موجودہ حکومت بھی سلامتی کونسل کی اس قرارداد اور ایٹمی معاہدے کی بدستور خلاف ورزی کر رہی ہے۔
مجید تخت روانچی نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا پابندیوں میں کمی یا نرمی ایٹمی معاہدے میں واپسی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، کہا کہ ظاہر ہے کہ پابندیاں اس بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کا حصہ تھیں اور ان کو ختم کیا جانا تھا تاکہ ایران بھی اپنے تمام وعدوں پر عمل کرے۔ انھوں نے اس سوال کے جواب میں کہ ایران کی جانب سے عمل میں لائے جانے والے اقدامات کیا کشیدگی میں اضافے کا باعث نہیں بنیں گے، کہا کہ ہم کبھی کشیدگی یا کشیدگی میں اضافے کے خواہاں نہیں رہے ہیں اور ہم نے اس وقت بھی کشیدگی نہیں چاہی جب ٹرمپ حکومت نے اشتعال انگیز اور کشیدگی پیدا کرنے والے اقدامات شروع کر دیئے تھے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ تہران نے جو اقدامات کئے ہیں وہ باعث کشیدگی نہیں ہونا چاہئیں اس لئے کہ ٹرمپ حکومت نے جب بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ایٹمی معاہدے میں شریک دیگر فریق ملکوں نے ہم سے یہی کہا کہ ہم ٹرمپ کی مانند موقف اختیار نہ کریں۔ انھوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی سے پہنچنے والے نقصانات کا بھی وہ ازالہ کریں گے پھر بھی ہم نے ایک سال تک انتظار کیا کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کریں مگر کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا گیا اور ایران نے اس بات کو محسوس کر لیا کہ ان کے سارے وعدے بس ایسے ہی تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس رو سے ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہم بھی ایٹمی معاہدے کے دائرے میں وہ اقدامات عمل میں لائیں جو مقابل فریق کی جانب سے وعدوں پر عمل نہ کئے جانے کی صورت میں ہمارے لئے قانونی حیثیت رکھتے تھے تاکہ ایٹمی معاہدے میں ایک توازن پیدا ہو سکے۔
مجید تخت روانچی نے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی تعداد کم کئے جانے کے بارے میں کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ کہنا تو بالکل بھی درست نہیں ہے کہ ایران نے ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو نکال دیا ہے، بس ہم نے ایڈیشنل پروٹوکول پرعمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کی رکنیت ختم نہیں کی ہے۔انھوں نے کہا کہ ایران اور آی اے ای اے کے درمیان جو اتفاق رائے ہوا ہے اس کا نتیجہ آئندہ تین ماہ میں نکل آنا چاہئے اور آئندہ تین ماہ کے اندر اگر پابندیاں نہیں اٹھائی گئیں تو ہم بھی تہران میں آی اے ای اے کے سربراہ کے ساتھ جو اتفاق رائے ہوا ہے اس کے سلسلے میں کوئی اقدام کریں گے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدہ پانچ جمع ایک کے تحت تھا مگر اس معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد یہ معاہدہ چار جمع ایک کے تحت جاری ہے جس سے متعلق نشستیں بھی منعقد ہوتی رہی ہیں اب امریکہ اگر ان نشستوں میں شریک ہونا چاہتا ہے تو پہلے وہ اپنے وعدوں پر عمل کرے، ایران کے خلاف ان تمام پابندیوں کا خاتمہ کرے جو گذشتہ پانچ برسوں کے دوران عائد کی گئی ہیں اور ایٹمی معاہدے کا فریق بنے ایسی صورت میں ایران بھی اپنے تمام وعدوں پر عمل کرے گا۔