Apr ۱۷, ۲۰۲۱ ۱۷:۳۸ Asia/Tehran
  • 60 فیصد یورینیئم کی افزودگی پر امریکہ کا ردعمل

امریکی صدر جوبائیڈن نے ہفتے کی صبح ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی ایٹمی معاہدے کے خلاف ہے۔

فارس خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے ملک کی جانب سے گذشتہ چار برس سے جاری بین الاقوامی ایٹمی معاہدے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزیوں کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر کہا ہے کہ ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی بقول ان کے ایٹمی معاہدے کے خلاف ہے۔

انھوں نے وائٹ ہاؤس میں جاپان کے وزیراعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی کی حمایت نہیں کر سکتا۔

امریکی صدر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی مفید ثابت ہو گی۔

جوبائیڈن نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی سے ویانا مذاکرات میں کوئی مدد نہیں ملے گی یہ بھی کہا کہ ویانا کے ان مذاکرات کے بارے میں ابھی کچھ کہنا صحیح نہیں ہو گا۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے بھی کہا ہے کہ امریکہ ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی جیسے بقول ان کے اشتعال انگیز اقدام کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ امریکی حکمرانوں کی جانب سے یہ بیانات ایسی حالت میں دیئے جا رہے ہیں کہ ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد تک افزودگی نہ صرف یہ کہ عام جوہری سرگرمیوں کے منافی نہیں ہے بلکہ ایک قانونی اقدام بھی ہے جس کا مقصد پرامن مقاصد میں فائدہ اٹھانا ہے۔

ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی ایران کے نوجوان جوہری سائنسدانوں کی توانائی کی ترجمان ہے مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ دشمنوں سے ایران کی علمی و سائنسی توانائی برداشت نہیں ہوتی۔

یورپ ، امریکہ اور ان کے بعض علاقائی اتحادی ملکوں نے، کہ جنھوں نے ایران کے نطنز ایٹمی مرکز میں دشمن کے تخریبی اقدام کی ابتک کوئی مذمت تک نہیں کی ہے، ایران کی جانب سے یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی پر فوری طور پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور ایران کے اس قانونی اقدام کو اپنی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے اغیار کے مداخلت پسندانہ بیانات کے جواب میں کہا ہے کہ ان کے اس قسم کے بیانات کا مقصد ویانا میں جاری ایران اور گروپ چار جمع ایک کے تکنیکی مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچانا ہے۔ انھوں نے عرب لیگ اور خلیج فارس تعاون کونسل کی جانب سے کئے جانے والے دعؤوں کے جواب میں کہا کہ ان تنظیموں کے اعلی عہدیداروں کو جان لینا چاہئے کہ ایران ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کا رکن ہے اور اس کی تمام ایٹمی سرگرمیاں اسی عالمی ادارے کی نگرانی میں انجام پا رہی ہیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ اپنے قومی مفادات کے مطابق ایران کی تمام قانونی ایٹمی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں گی

ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے عرب لیگ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کو صلاح دی ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف الزام تراشیوں میں غاصب صیہونی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے بجائے اس غاصب اور غیر قانونی حکومت کے فوجی جوہری پروگرام پر توجہ مرکوز کریں جس کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں ایٹمی اسلحے موجود ہیں اور یہ حکومت فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلسل پورے علاقے کے لئے خطرے کا باعث بنی ہوئی ہے جبکہ غاصب صیہونی حکومت نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط بھی نہیں کئے ہیں۔

ٹیگس