ضمانت نہ دے پانا، امریکی صدر کی لاچاری کی دلیل ہے: علی شمخانی
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کےسکریٹری علی شمخانی نے موجودہ امریکی صدر کو بے اختیار و لاچار صدر قرار دیا ہے جو کسی بھی طرح کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی نے بدھ کو اپنے ایک ٹوئٹ میں امریکی حکام کے حالیہ بیانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے زمانے اور آج کے وقت مذاکرات کی دعوت میں عبرت ناک مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔
علی شمخانی نے مزید کہا کہ جنگ کے زمانے میں صدام کے حملے جاری تھے اور آج پابندیاں جاری ہیں، اس وقت ایران کا ایک حصہ دشمن کے قبضے میں تھا اور آج ملت ایران کی معیشت و اقتصاد کو یرغمال بنا لیا گـیا ہے، اُس وقت مجاہدین محاذ جنگ پر دفاع کر رہے تھے اور آج ایرانی سائنسداں قانونی ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود جارح قوتوں کے سدھرنے کی کوئی علامت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا کہ بے اختیار اور لاچار امریکی صدر ضمانت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اگر موجودہ حالات تبدیل نہ ہوئے تو مذاکرات کے نتائج پہلے سے ہی معلوم ہیں۔
علی شمخانی نے مزید کہا کہ جنگ کے دور میں اور آج میں فرق صرف یہ ہے کہ آج انقلاب کی برکت سے ایران کی بھرپور استقامت اور طاقت و صلاحیت مقامی ہے اور اس کا سلسلہ جاری ہے اوراس کی بنیاد ملکی و داخلی ذرائع اور صلاحیتیں ہیں۔
دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نےامریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف دھمکی کا ہرگز کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور آئندہ بھی نہیں نکلے گا۔ ترجمان وزارت خارجہ سعید خطیب زادہ نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی علاقے میں امریکہ کے جعلی آپشنز آزمائے جا چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں امریکہ کی ذلت آمیز ناکامیاں بھی سب دیکھ رہے ہیں اور اس رسوائی کو اب دوسروں کو ٹھیک کرنا پڑ رہا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کو ایٹمی سمجھوتے کی موجودہ صورت حال سے عبرت حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔
جامع ایٹمی سمجھوتہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے ممالک کے درمیان دوہزار پندہ میں طے پایا ہے، اس سمجھوتے میں جرمنی سمیت سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین شامل ہیں۔ اس معاہدے پر جنوری دو ہزار سولہ سے عمل درآمد شروع ہوا لیکن سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو واشنگٹن کے عہد وپیمان کو پامال کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر اس سے باہر نکلنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ایران کے عوام کے خلاف زیادہ سے زیادہ اور سخت ترین پابندیاں نافذ کر دیں۔
امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن کی حکومت نے حالیہ مہینوں کے دوران کھل کر ایران کے خلاف امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف اور دعوا کیا ہے کہ امریکہ پھر ایٹمی سمجھوتے میں واپس آنا چاہتا ہے، لیکن اس سمجھوتے میں واپسی کے لئے اس نے اب تک کوئی بھی لازمی اقدام کرنے سے اجتناب کیا ہے۔