ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ کو پھر شرارت سوجھی
ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے ایران میں جوہری تنصیبات کی نگرانی کے عمل کو دشوار قرار دیا ہے۔
ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے دعوی کیا ہے کہ ایران میں جوہری تنصیبات کی نگرانی کا عمل کمزور ہو گیا ہے۔ یہ دعوا انہوں نے گلاسگو اجلاس کے موقع پر امریکی ٹی وی چینل سی این این سے گفتگو میں کیا۔
ایسو شیئیئٹڈ پریس سے گفتگو میں بھی انہوں نے ایران میں جوہری تنصیبات کی نگرانی کے عمل کے طریقے کو گھنے بادلوں میں پرواز کے مترادف قرار دیا ہے۔ رافائل گروسی نے امید ظاہر کی کہ وہ جلد ہی ایران کا دورہ اور ایران کے اعلی حکام سے مذاکرات کر سکیں گے۔
ایران، اور امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین و روس پر مشتمل گروپ پانچ جمع ایک نے چودہ جولائی دو ہزار پندرہ کو جامع ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کئے جس میں اس بات سے اتفاق کیا گیا تھا کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کر دے گا، اس کے مقابلے میں ایران کے خلاف جوہری پابندیاں معطل کر دی جائیں گی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی قرارداد بائیس اکتیس منظور کر کے اس بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی توثیق کر دی تھی۔
اس کے بعد ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ایران کی جانب سے ایٹمی وعدوں پر عمل درآمد کا جائزہ لے اور ایٹمی معاہدے کے فریق ملکوں کو اس بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرے، مگر امریکہ میں باراک اوباما کا دور صدارت ختم ہونے اور ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی حکومت نے آٹھ مئی سن دو ہزار اٹھارہ کو اس بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر علیحدگی نیز ایران کے خلاف پابندیوں کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔
امریکہ کے اس اقدام کے بعد ایران نے یورپی ملکوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عمل کئے جانے کی شرط پر ایک سال تک اس بین الاقوامی معاہدے سے متعلق اپنے تمام وعدوں پر عمل جاری رکھنے اور اس معاہدے کو بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر معاہدے کے فریق یورپی ملکوں نے بھی معاہدے کے مطابق اپنے وعدوں پر کوئی عمل نہیں کیا۔
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کو ایک سال مکمل ہوجانے کے بعد معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کی بنیاد پر ایران نے اپنے وعدوں سے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی۔ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے تحت ایران کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ معاہدے کے رکن دیگر ملکوں کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل نہ کئے جانے کی صورت میں جزوی یا کلی طور پر ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اپنے وعدوں پر عمل کرنے سے پسپائی اختیار کرے۔