Jan ۰۵, ۲۰۲۲ ۰۰:۴۱ Asia/Tehran
  • ایران پر حملہ کرنا، کیا اسرائیل کے بس کی بات ہے، اسرائیل کے فوجی اور سیاسی حلقوں میں کیوں ہے ناراضگی؟

اسرائیل میں اس وقت سیاسی اور فوجی حلقوں میں شدید ناراضگی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ تل ابیب میں متعدد عہدیداروں نے یہ بیان دے دیا ہے کہ اس وقت اسرائیل کے پاس ایران پر حملہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔

ویب سائٹ MDEAST NEWS نے سابق اسرائیلی سیکورٹی عہدیداروں کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کیا ہے جس کے مطابق سیکورٹی حکام بہت غصے میں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیان دینے والے عہدیداروں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے۔

اسرائیلی فوج میں رہتے ہوئے ایران کے پروجیکٹ پر کام کرنے والے فوجی عہدیدار نیتسان ایلون نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں اسرائیل نے ایران پر حملے کی توانائی بڑھانے پر مسلسل کام کیا ہے لیکن سیاسی قیادت کی ہدایات اور نئے خطروں کی وجہ سے دھیرے دھیرے اسرائیل کی ترجیحات بدل گئی، اب  تو اسرائیل اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ شام میں ایران کی مضبوط پکڑ کو کمزور کرے اور حزب اللہ کے میزائل پروگرام کو ناکام بنائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو علاقے کی سب سے بڑی فضائی طاقت تصور کیا جاتا ہے جو ایران کے اندر اپنے اہداف پر حملے کر سکتی ہے لیکن اسرائیل کے اندر یہ سوال بہت عام ہے کہ اس طرح کے حملے سے اسرائیل، ایران کے ایٹمی پروگرام کو کس حد تک روک پانے میں کامیاب ہوگا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کسی بھی حملے کے بعد اسرائیل کو جو قیمت چکانی پڑ سکتی ہے کیا وہ ایران پر حملے سے اسرائیل کو ملنے والے فائدے سے بہت زیادہ نہیں ہے؟

رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی حملے کے بعد ایران، خود یا اپنے اتحادیوں کی مدد سے جو انتقام لے گا اس سے اسرائیل کو تاریخی نقصان پہنچے گا۔

ویب سائٹ کی رپورٹ میں آگے بتایا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ایران پر حملے کے لئے موجودہ وزیر جنگ ایہود باراک کو حکم دے دیا تھا لیکن آخری لمحوں میں ایہود باراک نے اپنا ارادہ بدل دیا۔

رپورٹ کے مطابق ایران کی ایٹمی تنصیبات پر کوئی بھی حملہ بہت پیچیدہ ہوگا کیونکہ ایران کے ایٹمی تنصیبات ملک کے متعدد حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور انہیں بہت ہی محفوظ جگہوں پر بنایا گیا ہے۔

*مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*

ٹیگس