دوحہ مذاکرات، ایٹمی سمجھوتے میں امریکہ کی واپسی کا ایک موقع
پابندیوں کی منسوخی کے لئے ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات منگل سے قطر میں شروع ہوگئے ہیں جس میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نائب سربراہ انریکا مورے ثالثی کا کردار ادا کررہے ہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کے سینیئر مذاکرات کارعلی باقری کنی اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نائب سربراہ اور ایٹمی مذاکرات کے کوارڈی نیٹرانریکا مورے نے بالواسطہ مذاکرات سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقات کی۔ ایران کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے رابرٹ میلی نے بھی جو مذاکرات کی غرض سے دوحہ میں ہیں قطر کے نائب وزیرخارجہ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی سے ملاقات کی۔
ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کے لئے ویانا میں دسمبر دوہزار اکیس سے گروپ چار جمع ایک یعنی روس، چین، برطانیہ فرانس اور جرمنی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جو مارچ دوہزار بائیس میں جوزف بورل کی تجویز پر روک دیا گیا تھا اس وقت سے بعض ممالک منجملہ قطر نے ثالثی کی کوشش کی اور ایک دوسرے کے پیغامات پہنچائے۔
قطر کی وزارت خارجہ نے ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے کے لئے ہونے والے دوحہ مذاکرات کے سلسلے میں ایک بیان میں کہا کہ امید ہے کہ یہ مذاکرات مثبت اور نتیجہ خیز ہوں گے۔
درحقیقت جو چیز مذاکرات کو حتمی نتائج سے ہمکنار کرسکتی ہے وہ پابندیوں کی مکمل منسوخی اور خاتمہ اور ممکنہ سمجھوتے سے ایران کے مفادات کے حصول کی ضمانت ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ دوحہ مذاکرات کے موقع پر وائٹ ہاؤس اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا اور مذاکرات کی کامیابی کادارو مدارایران کے فیصلے پر ڈالنا چاہتا ہے چنانچہ جوبائیڈن حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سالیوان، ایٹمی سمجھوتے کی خلاف ورزی میں اپنے ملک کے کردار کی جانب کوئی اشارہ کئے بغیر ایک بار پھر مذاکرات کی بال ایران کے کورٹ میں ڈالنا چاہتے ہیں اور امریکی دعوؤں کی تکرار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران کے سلسلے میں یہ کہنا چاہئے کہ امریکہ کا موقف بہت پہلے سے واضح رہا ہے یعنی ہم ایٹمی ہتھیاروں تک ایران کی رسائی روکنے کے لئے پرعزم ہیں ۔
البتہ امریکی حکام کی جانب سے اس قسم کے بیانات نے جو گھسے پٹے اور تکراری ہیں ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، ایٹمی سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد کے لئے پائیدار معاہدے کی ضرورت پر کیوں زور دیتا ہے اس لئے کہ امریکہ کی ریپبلکن اور ڈیموکریٹ حکومتوں کی کارکردگی اور طرز عمل سے پتہ چلتا ہے کہ عملی طور پر ایران کے سلسلے میں ان کی پالیسی تقریبا یکساں اور ایک جیسی رہی ہے۔ ویانا مذاکرات کا سلسلہ رکنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ بائیڈن اپنی پچھلی حکومت پر اپنی تنقیدوں کے برخلاف ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ناکام پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں اور اس پالیسی کو تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بائیڈن انتظامیہ نے پابندیوں کے مکمل خاتمے اور ایران کو ٹھوس ضمانت دینے کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔