قائد انقلاب اسلامی سے روسی صدر کی ملاقات
ایران کے دورے پر آئے روسی صدر ولادیمیر پوتن نے آج بروز منگل مطابق 19 جولائی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی۔
سحر نیوز/ایران: روسی صدر "ولادیمیر پوتن" جو آج بروز منگل کو دورہ ایران پہنچ گئے، کچھ لمحات پہلے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی؛ اس ملاقات میں صدر ابراہیم رئیسی بھی شریک تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ان کے وفد سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت اور معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر تاکید کی اور مغرب کی دھوکہ دہی پر مبنی پالیسیوں سے ہوشیار رہنے کو ضروری قراد دیا اور فرمایا کہ ایران اور روس کے طویل المدتی تعاون سے دونوں ممالک کو گہرا فائدہ ہے۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ عالمی واقعات ایران اور روس کے درمیان باہمی تعاون میں اضافے کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تیل اور گیس کے شعبے سمیت بہت سی مفاہمتیں اور معاہدے موجود ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے ایران اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون کو خاص طور پر مغربی پابندیوں کے تناظر میں ضروری اور دونوں ممالک کے مفاد میں قرار دیا اور یوکرین کے واقعات کے حوالے سے کہا: جنگ ایک سخت اور مشکل امر ہے اور اسلامی جمہوریہ اس بات پر بالکل بھی خوش نہیں کہ عام لوگ اس کا شکار ہوں لیکن یوکرین کے معاملے میں اگر آپ نے پہل نہ کی ہوتی تو دوسری طرف اپنی پہل سے جنگ چھیڑ دیتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مغربی ممالک ایک مضبوط اور خودمختار روس کے مکمل مخالف ہیں، نیٹو کو ایک خطرناک ادارہ قرار دیا اور مزید فرمایا: اگر نیٹو کے لیے راستہ کھلا ہے تو اس کی کوئی سرحد نہیں ہے اور اگر اسے یوکرین میں نہ روکا جاتا تو کچھ عرصے بعد، کریمیا کے بہانے یہی جنگ شروع کرتے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ بے شک آج امریکہ اور مغرب پہلے کی نسبت کمزور ہیں اور بڑی کوششوں اور اخراجات کے باوجود شام، عراق، لبنان اور فلسطین سمیت ہمارے علاقے میں ان کی پالیسیاں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔
انہوں نے شام کے مسئلے کو بہت اہم قرار دیا اور اس ملک پر فوجی حملے کی مخالفت کرنے اور اسے روکنے کی ضرورت پر اسلامی جمہوریہ کے موقف پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ شام کے مسئلے میں ایک اور اہم مسئلہ زرخیز اور تیل سے مالا مال علاقوں پر امریکیوں کا قبضہ ہے جن کو فرات کے مشرقی علاقے سے نکال کر یہ مسئلہ حل کیا جانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے علاقے کے امور میں صیہونی حکومت کی مداخلت کی مذمت کی اور صیہونیوں کے خلاف روسی صدر کے حالیہ موقف کو سراہا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کبھی بھی ایسی پالیسیوں اور منصوبوں کو برداشت نہیں کرے گا جو ایران اور آرمینیا کے درمیان سرحد کو بند کرنے کا باعث بنیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب کے فریب کے خلاف ہوشیاری کو بھی ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ امریکی منھ زور اور چالاک ہیں اور سابق سوویت یونین کے انہدام کے عوامل میں سے ایک امریکی پالیسیوں کے سامنے دھوکہ کھا جانا تھا، البتہ روس نے آپ کے دور میں اپنی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ کیا ہے۔
واضح رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس سے پہلے اپنے ایرانی ہم منصب سے ایک ملاقات میں مختلف شعبوں بشمول توانائی، ٹرانزٹ، تجارتی لین دین میں تعاون بڑھانے سمیت علاقائی تبدیلیوں پر تبادلہ خیال کیا۔
روسی صدر نے تہران کی میزبانی میں منعقد ہونے والے آستانہ امن عمل کے ساتویں سربراہی اجلاس میں حصہ لینے کیلئے تہران کا دورہ کیا ہے۔
آستانہ امن عمل کے ساتوں دور کا سربراہی اجلاس منگل کی رات کو ایران، ترکی اور روس کے صدور کی شرکت سے انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں ابراہیم رئیسی، ولادیمیر پوتن اور اردوغان، شام کی تازہ ترین تبدیلیوں، انسداد دہشتگردی بالخصوص داعش اور پی کے کے کے خلاف جنگ اور شامی پناہ گزیوں کی اپنی مرضی پر وطن واپسی کے امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
آستانہ امن عمل کے ضامن ممالک کے چھٹے اجلاس کا 2019 میں کورونا پھیلاؤ کی وجہ سے ورچوئل انعقاد کیا گیا؛ لیکن اب ابراہیم رئیسی صدرات کے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار اسی اجلاس میں حصہ لیں گے۔
خیال رہے کہ ایران، ترکی اور روس نے حالیہ سالوں میں عرب ملک شام میں 11 سالہ جنگ کے اختتام کے حل نکالنے کیلئے " آستانہ امن عمل" کے فریم ورک کے اندر کام کریں گے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ شامی بحران کے سیاسی حل نکالنے اور جنگ بندی کے قیام کے سلسلے میں ابتدائی نشستوں کا متحارب فریقین سمیت ایران، روس اور ترکی کے نمائندوں کی شرکت سے قازقستان میں انعقاد کیا گیا اور "آستانہ امن عمل کے ضامن ممالک" کے پہلے اجلاس کا دسمبر 2017 میں ان تینوں ممالک کے صدور کی شرکت سے روسی شہر سوچی میں انعقادد کیا گیا۔