ایٹمی معاہدہ ،ایران نے گیند امریکی کورٹ میں ڈال دی
ایران کے نائب وزیر خارجہ اور چیف ایٹمی مذاکرات کار علی باقری کنی نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے حوالے سے گیند امریکی کورٹ میں ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا مذاکراتی وفد، چیف ایٹمی مذاکرات کار علی باقری کنی کی قیادت میں، جمعرات کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا پہنچ گیا جہاں وہ امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے نئے دور میں حصہ لے گا۔
ایران اور ایٹمی معاہدے کے دیگر رکن ملکوں کے درمیان مذاکرات جمعرات کو کسی وقت شروع ہونے کی توقع ہے۔
ایران کے چیف ایٹمی مذاکرات کار علی باقری کنی نے بدھ کی شب اپنے ایک ٹوئٹ میں مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ویانا روانگی کی خبردی تھی۔
علی باقری کنی کا کہنا تھا کہ اصل ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ماضی کے نحس ورثے کو چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس موقع کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو انہیں، ایٹمی معاہدے کے دیگر ارکان نے کھلے دل کے ساتھ فراہم کیا ہے۔
ایران کے چیف ایٹمی مذاکرات کارعلی باقری کنی نے مزید کہا کہ آج سے شروع ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر اس بات کو ثابت کردیں گے کہ امریکہ حقیقی معاہدے کے حصول میں سنجیدہ بھی ہے یا نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گیند اب امریکہ کے کورٹ میں ہے اور اس کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی اور ذمہ داری کا ثبوت پیش کرے۔
اس سے پہلے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر امریکہ حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرے تو ایک اچھے اور بہترین معاہدے کا حصول ممکن ہے۔ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران بارہا اعلان کرچکا ہے کہ، چونکہ امریکہ نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے لہذا یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایران کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے میں واپس آئے اور پابندیوں کی ایسی ضمانتیں فراہم کرے جو نظر آئیں اورمحسوس کی جاسکیں ۔
ایران کے خلاف امریکہ کی غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کی غرض سے ہونے والے مذکرات میں شریک تقریبا تمام ممالک، بات چیت کے عمل کو جلد از جلد مکمل کیے جانے کے خواہاں ہیں لیکن حتمی سمجھوتے کا حصول، باقی ماندہ اہم معاملات پر امریکہ کی سیاسی فیصلہ سازی پر منحصر ہے۔
امریکہ کی ظالمانہ اور غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں اب تک جو بھی پیشرفت ہوئی ہے وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی عملی تجاویز اور تعمیری سوچ کی مرہون منت ہے۔ موجودہ امریکی حکومت بھی ٹرمپ انتظامیہ کی مانند ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر گامزن ہے جس کی وجہ سے ایٹمی معاہدے میں واپسی کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کی سوچ کے بارے میں شکو ک شبہات پیدا ہوگئے ہیں اور مذاکرات کا عمل اب تک طول پکڑتا رہا ہے۔