ایران- یواے ای تعلقات، کس کروٹ بیٹھے گا اونٹ؟
متحدہ عرب امارات کے سفیر سات سال بعد تہران واپس لوٹ آئے ہیں اور تہران پہنچ کر انہوں نے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان سے ملاقات کرکے دونوںن ممالک کے تعلقات میں توسیع پر تاکید کی۔
سحر نیوز/ ایران: متحدہ عرب امارات، ایران کا پڑوسی ملک ہے لیکن اس کے ایران سے تعلقات کچھ جزیروں کو لے کر بے بنیاد دعوؤں اور غیر ملکی طاقتوں کے متاثر ہوکر غیر مستحکم رہتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات، ایران کے تینوں جزیروں پر اپنا دعوی کرتا ہے اور اکثر و خاص طور پر عرب ممالک کے اجلاس میں ان دعوؤں کی تکرار بھی کرتا رہتا ہے لیکن ایران نے ہمیشہ ہی اس کے اس دعوے پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں ممالک کے تعلقات غیر ملکی طاقتوں کے اثر و رسوخ میں تبدیلی ہوتے رہتے ہیں حالانکہ یو اے ای کا یہ بھی دعوی ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اس کی غیر ملکی اور خارجہ پالیسی سعودی عرب اور امریکا جیسے ممالک کے دباؤ میں رہتی ہے۔
یمن کے خلاف جنگ اور ایران و قطر سے تعلقات منقطع کرنا، اس کی کھلی مثال ہے۔ 2016 میں سعودی عرب کی حمایت میں ایران پر دباؤ بنانے کے لئے یواے ای نے تہران سے تعلقات منقطع کر لئے تھے اور امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں یہی رویہ جاری رکھا تھا۔
ابو ظہبی حکومت نے تہران کے ساتھ ایسا رویہ اختیار لیکن تہران نے ہمیشہ ایک پڑوسی ملک کے طور پر یو اے ای سے اچھے تعلقات پر تاکید کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایسا بہت ہی کم دیکھنے کو ملے کا کہ کبھی دونوں ممالک کے تعلقات کسی ایسے مسئلے کو لے کر خراب ہوئے ہوں جس کا تعلق صرف دونوں ممالک سے رہا ہوں، اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات بھی بہت گہرے ہیں۔
اب سات سال بعد ابو ظہبی نے تہران کے لئے اپنا سفیر کو بھیج دیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب اس کی غیر ملکی پالیسی پر سعودی عرب اور امریکا کے اثر و رسوخ ختم ہو گیا ہے بلکہ اس میں تیسرا فیکٹر اور جڑ گیا ہے اور وہ ہے اسرائیل۔ یواے ای نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا معاہدہ کر لیا ہے جس کے بعد اس ملک میں صیہونی حکومت کی سرگرمیاں بھی کسی حد تک ابو ظہبی کی خارجہ پالیسی کو متاثر کر رہی ہیں۔
یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات خود یو اے ای کے لئے زیادہ فائدے مند ہے۔ حالیہ برسوں میں قطر اور دیگر عرب ممالک کے درمیان جو سفارتی بحران پیدا ہوا تھا، اس میں ایران نے دوحہ کی بھرپور حمایت کی تھی جس نے یہ ثابت کر دیا کہ ایران اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی بھرپور حمایت بھی کرتا ہے۔