تبدیلی کا طوفان یا عزم کی آندھی ..... مقالہ
سعودی عرب نے یمن پر جو جنگ مسلط کی ہے اسے "عزم کی آندھی" کا نام دیا ہے لیکن اس جنگ کے ساتھ ہی ولی عہد محمد بن سلمان نے ملک کے اندر "تبدیلی کی آندھی" چلا دی تو سوال یہ ہے کہ کون سی آندھی، عرب کی اس سرزمین سے آل سعود خاندان کا خاتمہ کرے گی؟
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ملک کو طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرنے والے قوانین سے پوری طرح نجات دیں۔ وہ یہ کوشش اس سعودی عرب میں کر رہے ہیں جہاں کا نظام رجعت پسند نظریات استوار ہے۔
محمد بن سلمان نے اصلاحات پروگرام کے تحت سب سے زیادہ انتہا پسند شعبے کا نام جو مذہبی تعلیمات پرعوام کی پابندی پر نظر رکھتا تھا، انٹرٹینمنٹ ڈیپارٹمنٹ رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نئے شعبے کے لئے 64 ارب ڈالر کا بھی بڑا بجٹ پاس کر دیا۔ پروگرام کے مطابق اگلے دس سال کے دوران اس شعبے کو متعدد علاقوں تک منتقل کیا جائے گا۔
محمد بن سلمان کے اس نئے "انٹرٹینمنٹ ڈیپارٹمنٹ" کی قدیمی شکل سوچ کر بھی سعودی شہریوں کی روح فنا ہو جاتی تھی کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شعبے کے اراکین ذرا کی بے احتیاطی پر چیل کی طرح چھپٹ کر پکڑ لیتے اور مذہبی قوانین سے اپنی روش سے آگاہ کرتے مگر اب یہی شعبہ انٹرٹینمنٹ ڈیپارٹمنٹ بن گیا ہے۔
اس شعبے کے سربراہ احمد الخطیب نے بتایا کہ اوپیرا ہاوس بنانے کا کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ منصوبے کے مطابق 2030 تک پچاس ہزار منصوبے پورے ہو جائیں گے اور یہ سب کے سب انٹرٹینمنٹ کے لئے ہوں گے۔
ویسے سعودی عرب کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ وہاں کے مفتی اپنے آقاؤں کی آنکھوں کے اشارے پر فتوے اگلتے ہیں اور ان کی مدد سے سعودی عرب کے لئے امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنا آسان ہے۔
حکومت، دولت اور امریکی آشرباد، ایسا مثلث ہے جسے گلے میں پہن کر سعودی عرب کسی بھی تخت پر قبضہ کر سکتا ہے اس لئے جب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر پورپی پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں یہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت نے 4 ہزار مبلغین اور امام جماعت کو گرفتار کیا ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اسی طرح چھوٹی چھوٹی خلاف ورزیوں پر گرفتار اور کوڑے مارنے والے مبلغین کو اگر آپ ریاض میں ویلنٹائن ڈے پر پھول تقسیم کرتے دیکھیں تو یہ نہ سوچیں کہ آپ خواب دیکھ رہے ہیں بلکہ یقین کریں کہ یہ امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے محمد بن سلمان کی ریاضت کا ہی ایک حصہ ہے۔
امریکا کو خوش کرنے کے لئے مال و اسباب کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اسرائیل خوش ہونے کے لئے تیار بیٹھا ہے اور یہی سبب ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی گاڑی پوری رفتار سے اپنے مقصد کی جانب رواں دواں ہے۔
سعودی عرب اپنی اس ریاضت سے لوگوں کو آگاہ کرانے کے لئے خواتین کو کافی آزادی دے رہا ہے اور اس کے ساتھ زیادہ انتہا پسند کہے جانے جانے سعودی عرب میں ریڈ سی کے خوبصورت ساحل پر ایسا انٹرٹینمنٹ مقام بنانے پر کام شروع ہو چکا ہے جو غیر ملکیوں سے مخصوص ہوگا جہاں خواتین اور مرد ایک ساتھ مزے کر سکیں گے۔
اس طرح سے سعودی عرب میں جو تبدیلی جاری ہے وہ جلد ہی خطرناک آندھی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں اور ان حالات یہ آندھی یمن پر حملے کی "عزم کی آندھی" سے پہلے ہی آل سعود کا تختہ الٹ دے گی۔