خادم حرمین شریفین کی تنخواہ، جان کر حیران ہو گیا عالم اسلام... مقالہ
آج کل عالمی میڈیا میں سعودی فرمانروا کی تنخواہ کا موضوع گفتگو کا محور بنا ہوا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ ریاض نے حال ہی میں بدعنوانی کے خلاف کاروائی کا دعوی کرکے متعدد شہزادوں، تاجروں اور حکام کو گرفتار کیا اور ان کے مال و اسباب کو ضبط کر لیا۔
برطانوی ویب سائٹ میڈل ایسٹ نے انکشاف کیا کہ سرکاری خزانے سے دی جانے والی سعودی فرمانروا کی تنخواہ، امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم سمیت دنیا کے کئی اعلی حکام سے کئی گنا زیادہ ہے۔
برطانیہ کے مشہور نامہ نگار ڈیوڈ ہرسٹ نے اپنے ایک مقالے میں سعودی عرب کے حکومتی ایوان کے قریبی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی فرمانروا سلمان بن عبد العزیز تقریبا 80 کروڑ ڈالر تنخواہ لیتے ہیں۔
برطانیہ کا یہ نامہ نگار سعودی فرمانروا کی تنخواہ کو برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تنخواہ سے مقایسہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ٹریزا مے کو سالانہ ایک لاکھ 54 ہزار دو سو پاونڈ تنخواہ ملتی ہے جس میں ان کی رہائیش، اقامتگاہ اور گھریلو خرچے شامل نہیں ہیں۔
ہرسٹ اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تنخواہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ٹرمپ کو سالانہ 4 لاکھ ڈالر اور کچھ سہولتیں ملتی ہیں لیکن سعودی فرمانروا ہر مہینے امریکی صدر کی تنخواہ سے 2 لاکھ گنا تنخواہ لیتے ہیں۔
برطانوی نامہ نگار کی رپورٹ میں جو بات توجہ کا مرکز بن ہے وہ بد عنوانی کے خلاف کاروائی اور بد عنوانی سے مقابلے کے بہانے دسیوں شہزادوں اور حکام کی گرفتاری کے وقت اتنی زیادہ تنخواہ لینے کا موضوع ہے۔
سعودی ولی عہد نے تقریبا پانچ مہینہ پہلے ملک میں بدعنوانی پر شکنجہ کسنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے دوران پچاس سے زیادہ اعلی شہزادوں کو حراست میں لیا گیا۔ یہ موضوع شہزادوں کی گرفتاری تک محدود نہیں رہی بلکہ گرفتار شہزادوں کے اثاثے بھی ضبط کر لئے گئے۔
جیسا کہ جرمن نیوز نیوز ایجنسی نے بتایا کہ 106 ارب ڈالر کی نقدی، قیمتی اثاثے اور اشیاء، زیر حراست شہزادوں سے ضبط کی گئی۔ سعودی عرب کی حکومت، جنگ یمن کے خرچے اور تیل کی قیمتی میں شدید کمی کی وجہ سے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے درپے ہے۔
سعودی فرمانروا ایسی حالت میں 80 کروڑ ڈالر تنخواہ لے رہے ہیں کہ جب وہ اور ان کے بیٹے بدعنوانی کے خلاف جنگ کا دعوی کر رہے ہیں۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران عالمی اقتصادی بحران کے آغاز کے بعد سے سعودی عرب کو تاریخی اقتصادی خسارے کا سامنا ہے جبکہ اشیاء اور خدمات پر 400 فیصد مہنگائی کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے ان برسوں کے دوران سعودی حکام اور شہریوں کی تنخواہ صرف 66 فیصد بڑھی ہے۔
سعودی شہریوں کی شکایت یہ ہے کہ ملک کے عوام کو بہت زیادہ اقتصادی مسائل کا سامنا ہے جبکہ ملک کے فرمانروا دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں اور انہیں اپنے شہریوں اور عوام کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں ہے۔