Jun ۱۶, ۲۰۱۸ ۱۷:۰۷ Asia/Tehran
  • بیت المقدس میں باجماعت نماز پڑھنے اور ٹرمپ کے ساتھ افطار کرنے میں فرق!!!

یہ بات قابل توجہ ہے کہ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے حال ہی میں جو خطاب کیا تھا اس کے دوران بیک اسکرین پر ایک جملہ لکھا ہوا نظر آ رہا تھا کہ بہت جلد ہم بیت المقدس میں نماز ادا کریں گے۔

عام طور پر جب سید حسن نصر اللہ خطاب کرتے ہیں تو اس حوالے سے کوئی اہم جملہ یا نعرہ لکھا دکھائی دیتا ہے۔

یوم القدس کے موقع پر جو خطاب سید حسن نصر اللہ نے کیا اس کے دوران یہ جملہ لکھا نظر آیا کہ ہم بہت جلد بیت المقدس میں نماز پڑھیں گے۔ اس خطاب میں سید حسن نصراللہ نے کہا بھی کہ وہ دن آنے والا ہے جب ہم سب جماعت کے ساتھ بیت المقدس میں نماز پڑھیں گے اور یہ جنگ عظیم کا دن ہوگا۔

اس جملے سے میرے ذہن میں سعودی عرب کی موبائیل کمپنی زین کا نعرہ گونجنے لگا جس میں کمپنی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بہت جلد ایک ساتھ بیت المقدس میں افطار کریں گے۔ یہ نعرہ تب دیا گیا جب ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تھا۔

میرے خیال میں تو ان دونوں جملوں میں کوئی مضبوط تعلق نہیں ہے ویسے یہ باتیں کہنے والے فریق بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ زین کمپنی اور اس کے جو بھی کسٹمر ہیں ان کا خواب بیت المقدس میں جاکر ناشتہ کرنا ہے یا یہ افطار وہ اپنے سربراہ ٹرمپ کے ساتھ کریں گے۔ انہوں نے کہا بھی ہے کہ میرے سربراہ ٹرمپ ہیں جبکہ سید حسن نصر اللہ مزاحمتی تحریک کے سربراہ ہیں اسی لئے انہوں نے ہمیں بیت المقدس میں جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی پر تشویق دلائی ہے۔ کتنا فرق ہے مزاحمتی تحریک کے سربراہ کے ساتھ بیت المقدس میں نماز پڑھنے اور ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر بیت المقدس میں افطار کرنے میں؟؟؟؟؟

خالد الجیوسی

فلسطینی تجزیہ نگار

 

ٹیگس