Aug ۰۲, ۲۰۱۸ ۲۱:۰۲ Asia/Tehran
  • واشنگٹن اور انقرہ کے تعلقات کشیدگی کے راستے پر

ایک غیر معمولی اقدام کے تحت نیٹو کے ایک رکن ملک نے نیٹو کے ہی ایک ممبرملک پر پابندی لگادی ہے اور جس ملک پر پابندی لگی ہے اس نے بھی جوابی اقدام کی دھمکی دی ہے۔

پابندیوں اور دھمکیوں کا یہ واقعہ نیٹو کے دو چھوٹے ممبر ملکوں کے درمیان کا نہیں بلکہ نیٹو کے سب سے بڑے ممبرملک امریکا نے ترکی کے وزرائے داخلہ اور قانون پر پابندی عائد کردی ہے۔

ترکی کے دو وزیروں پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ امریکا کے ایک سابق عیسائی پادری کو ترکی میں گرفتار اور اس پر مقدمہ چلانے میں انہی دونوں ترک وزرا کا ہاتھ ہے۔

ترکی نے امریکا کے عیسائی پادری برونسن کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور فتح اللہ گولن گروپ سے تعاون کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔

ترک حکومت کے اس اقدام پر امریکی صدر ٹرمپ سیخ پا ہوگئے اور انہوں نے دھمکی دے ڈالی کہ اگر ترک حکومت نے امریکی پادری کو رہا نہ کیا تو انقرہ کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

اگرچہ امریکی پادری کی سزائے قید جیل سے گھر میں نظر بندی کی شکل میں تبدیل کردی گئی ہے لیکن ٹرمپ نے ایک فرمان جاری کرکے ترکی کے وزیرداخلہ سلیمان سوئیلو اور وزیرقانون عبدالحمید گل کے خلاف پابندیاں عائد کردی ہیں۔

دوسری جانب ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے امریکا کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ترکی کے خلاف پابندی عائد کرنے کا امریکی اقدام کسی جواب کے بغیر نہیں رہے گا اور ترکی اس کا ہر صورت میں جواب دے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور ترکی کے درمیان کشیدگی کا معاملہ صرف ایک پادری کی گرفتاری کے مسئلے تک ہی محدود نہیں ہے - رجب طیب اردوغان کو جنھوں نے آئین میں تبدیلی کرکے وسیع تر اختیارات حاصل کرلئے ہیں اس بات پرتشویش ہے کہ کہیں گولن کے لئے امریکا کی کھلم کھلا اور خفیہ حمایت ان کے اقتدار کے لئے خطرہ نہ بن جائے اور یوں جولائی دوہزار سولہ میں ہونے والی ناکام بغاوت اس بار کامیاب نہ ہوجائے۔

 امریکا کو بھی اس بات پر سخت تشویش ہے کہ ترکی کے روس اور ایران کے ساتھ تعلقات بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان تینوں ملکوں  کا آپسی تعاون اور یکساں موقف مغربی ایشیا اور خاص طور پر شام میں امریکا کے طویل مدت منصوبوں سے مکمل طور پر ٹکراتا ہے۔ گذشتہ چند سال کے واقعات اور خاص طور پر امریکا میں ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سے واشنگٹن کے سیاسی اور فوجی اتحادیوں کا بھی اعتماد امریکا پر سے یا تو کم ہوتا جارہا ہے یا اٹھ چکا ہے۔

مغربی یورپ سے لے کر مشرقی ایشیا تک امریکا کے سبھی اتحادی اس کوشش میں ہیں کہ واشنگٹن سے اپنی وابستگی کم کریں اور اپنی خارجہ پالیسی اور تجارتی تعلقات میں تنوع پیدا کریں تاہم اس سوچ پر امریکا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود گذشتہ چند برسوں کے واقعات سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ امریکا کی جانب سے دھونس و دھمکی کی پالیسی نہ صرف اس کے حریفوں اور دشمنوں کے خلاف کامیاب اور کارگر ثابت نہیں ہوئی ہے بلکہ اس طرح کی پالیسی کو امریکا کے بیشتر روایتی اتحادیوں نے بھی نظر انداز کردیا ہے۔

اس درمیان انقرہ کی جانب سے امریکی دھمکیوں اور پابندیوں کو کوئی اہمیت نہ دینے سے دونوں ملکوں کے تعلقات تیزی کے ساتھ کشیدہ ہوتے جارہے ہیں اور اگر یہ صورتحال جاری رہتی ہے تو بحران سے دو چار مغربی ایشیا میں  نیٹو کے دو موثر ممبر ملکوں کا تعاون ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہوجائے گا۔

ٹیگس