دہشت گردوں کو تحفظ دینے کی دیرینہ خواہش + مقالہ
شام کے صوبہ ادلب میں پھنسے دہشت گردوں کو بچانے کے لئے ان کے حامیوں کی دیرینہ خواہشات بڑھتی جا رہی ہیں۔
سب سے زیادہ بے چینی ترکی میں نظر آ رہی ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے تہران اجلاس میں اس طرح کی کوششوں کی ناکامی کے بعد نیا راستہ اختیار کیا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ انقرہ، ادلب کے مسئلے کے حل کے لئے سبھی فریق سے مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ ترکی کے اخبار حریت نے لکھا کہ انقرہ نے حالیہ دنوں میں ادلب کے مسئلے کے حل کے لئے ماسکو کو نئی تجویز دی ہے۔
اخبار نے لکھا کہ شام کے ادلب کے خلاف آپریشن سے روکنے میں ناکامی کے بعد ترکی نے یہ تجویز پیش کی ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر دہشت گردوں کی بات ہے تو آئیں ہم سب مل کر تعاون کریں اور ان کا خاتمہ کر دیں، اتنے عام شہریوں کو کیوں ہلاک کریں؟ ہم روس، ایران، فرانس اور برطانیہ نیز تمام فریق کے ساتھ مل کر، حل کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔
ترکی نے ایچ ٹی ایس نامی دہشت گرد گروہ کو، دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ ترکی کے اخبار حریت کے مطابق، ترکی کے اس قدم میں دو پیغام پوشیدہ ہیں۔
روس، ایران، امریکا اور دیگر ممالک کے لئے پہلا پیغام تو یہ ہے کہ ترکی دہشت گردوں کے خلاف جنگ پر آمادہ ہے اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ دہشت گردوں اور عام شہریوں میں امتیاز ہونا چاہئے۔
دوسرا پیغام اس دہشت گرد گروہ کے لئے ارکان کے لئے تھا کہ وہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس گروہ سے جدا ہو جائیں تاکہ حملوں سے محفوظ رہیں۔
در ایں اثنا ترکی کے ینی شفق اخبار نے لکھا ہے کہ ترکی کی فوج نے عفرین، عزاز، جرابلس، الباب اور الرای میں فری سیرین آرمی کے 50 ہزار انتہا پسندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ شامی فوج سے مقابلہ کرنے اور ادلب آپریشن میں مداخلت کے لئے تیار رہیں۔
شام کی سرحد کے اندر تعینات ترک فوجیوں کی تعداد بھی 30 ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور حالیہ دنوں میں ترکی کی فوج نے شام میں اپنے ٹینکوں اور فوجی وسائل کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی کی فوج نے فری سیرین آرمی سے کہا ہےکہ وہ اپنے پاس موجود ہتھیار اور وسائل کی فہرست ان کے حوالے کرے۔
ترکی کی فوج ادلب کے شمال سے لے کر جنوب تک 12 چوکیاں بنا چکی ہے اور رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ وہ جگہ جگہ محاذ بنا کر شامی فوج سے براہ راست مقابلے کی تیاری کر رہی ہے۔
اردوغان کہہ چکے ہیں کہ اگر شامی فوج نے ادلب میں کاروائی کی تو ترکی خاموش نہیں رہے گا اور مداخلت کرے گا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے تہران اجلاس میں ادلب کے مشترکہ حل پر اتفاق کیا تھا۔
واضح رہے کہ ترکی کی فوج، سارے قوانین کو فراموش کرتے ہوئے شام کے علاقوں میں تعینات ہے اور اب دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے، ادلب پر شامی فوج کی کاروائی کے راستے میں مانع تراشی کی کوشش کر رہی ہے۔