Dec ۳۰, ۲۰۱۸ ۱۶:۴۱ Asia/Tehran
  • منبج میں شامی فوج کی تعیناتی، انقرہ کا حساب کتاب دھرا رہ گیا

عرب ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ منبج میں شامی فوج کی تعیناتی نے ترکی کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے۔

انٹرنیٹ اخبار العرب نے لکھا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے وہ منبج پر حملے سے دستبردار ہو رہے ہیں جبکہ روس نے منبج میں دمشق حکومت کے کردار کی حمایت کی ہے۔
شامی فوج نے کردوں کے زیر قبضہ علاقے منبج کا کنٹرول سنبھال کر صدر اردوغان کا سارا حساب کتاب درہم برہم کر دیا کیونکہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے بعد انہوں نے منبج پر حملہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
صدر اردوغان نے اپنے تازہ بیان میں منبج پر حملے سے گریز اور شام کی ارضی سالمیت کے احترام کی بات کہی ہے۔ ان کے اس بیان کے یہ معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ صدر اردوغان نے زمینی حقائق کو تسلیم کر لیا ہے کیونکہ روس نے بھی منبج میں شامی فوج کی تعیناتی کے معاملے میں دمشق حکومت کی دو ٹوک حمایت کی ہے۔
شامی فوج جمعے کے روز کرد آبادی والے شہر منبج میں داخل ہوئی تھی۔ ترک حکومت نے پہلے تو ان خبروں کی تردید کی کہ شامی فوج منبج میں داخل ہو گئی ہے تاہم بعد ازاں صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ کرد آبادی والے علاقوں میں شامی فوج کی تعیناتی پر ترکی کو کوئی اعتراض نہیں۔
امریکی فوج کے انخلا کے بعد منبح شہر میں شامی فوج کی تعیناتی کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس علاقے پر دمشق حکومت کا کنٹرول بحال ہو گیا ہے اور اس کا فائدہ صدربشاراسد کو پہنچے گا۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے جمعے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر دہشت گرد گروہ منبج سے باہر نکل جائیں تو پھر انقرہ کو اس شہر سے کوئی سروکار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی، منبج اور کرد آبادی والے دیگر شہروں میں فوجی آپریشن کے آغاز میں جلد بازی سے کام نہیں لے گا۔
صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر، ہم شام کی ارضی سالمیت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، یہ علاقے شام کا حصہ ہیں اور دہشت گردوں کے نکلتے ہی ان علاقوں میں ہماری تمام سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی۔
ترک صدر کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شامی فوج کی منبج میں تعیناتی اور کرد فورسز کا بشار اسد حکومت میں واپسی کا فیصلہ ان کے لیے بالکل غیر متوقع تھا، تاہم انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے خود کو آمادہ کر لیا ہے۔

ٹیگس