سعودی عرب کی اہم تنصیبات پر حملے کے پیغامات + مقالہ
ایران- عراق جنگ اور خلیج فارس کی پہلی جنگ کے بعد خلیج فارس کا امن اس وقت اچانک ندارد ہو گیا جب 12 مئی کو سعودی اور متحدہ عرب امارات کے تیل ٹینکروں پر مشکوک حملہ ہوا ۔
اس کے دو دن بعد ہی سعودی عرب میں دو تیل پمپنگ اسٹیشنز پر ڈرون طیاروں نے میزائل فائر کئے، اس حملے میں حالانکہ بہت شدید نقصان نہیں ہوا تاہم علاقے اور دنیائے عرب کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت سے خود کو قائم کرنے کے لئے جد و جہد کرنے والے عرب ممالک کی عزت اور ساکھ کو یقینی طورپر شدید نقصان پہنچا ہے ۔
ان حملوں سے آبنائے ہرمز سے تیل کی رفت و آمد تو متاثر نہیں ہوئی لیکن اس سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کمزوری واضح ہوگئی کہ چھوٹا سا حادثہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے اور تیل کی سپلائی میں کس حد تک معطل ہو سکتی ہے۔
یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ کے ترجمان محمدعبد السلام نے ٹویٹ کرکے سعودی عرب کے اندر تیل تنصیبات پر ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تاہم متحدہ عرب امارات کی الفجیرہ بندرگاہ پر سعودی اور اماراتی آئیل ٹینکرز پر ہوا حملہ ابھی بھی معمہ بنا ہوا ہے ۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے حالانکہ اس حملے کے لئے ایران کی جانب انگلی اٹھائی لیکن امریکا نے پوری طرح خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ ایران نے پہلے ہی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
کچھ لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اس حملے کی داستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے تیار کی تھی تاکہ امریکا کو بھڑکا کر ایران کے خلاف جنگ کے لئے اکسایا جا سکے ۔
سعودی عرب اور اسرائیل کافی عرصے سے امریکا کو ایران کے خلاف جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایران کی فوجی طاقت اور علاقے میں اس کے اثر و رسوخ کے مد نظر ابھی تک امریکا کو براہ راست ایران سے تصادم کے لئے اعتماد میں نہیں لے سکے ہیں ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سعودی عرب اور اسرائیل واشنگنٹن کو ایٹمی معاہدے سے نکلوانے اور تہران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لئے تیار کر سکے لیکن جنگ میں جھونکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔
امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات اور دھمکیوں کے مد نظر آسانی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن، تہران کے ساتھ جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے، ہاں وہ سخت پابندیاں عائد کرکے ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے مجبور کرنا چاہتا ہے ۔
دوسری جانب ایرانی حکام خاص طور پر رہبر انقلاب اسلامی نے بھی واضح کر دیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہیں ہوگی لیکن تہران مذاکرات کے لئے واشنگٹن کی تجویز بھی قبول نہیں کرے گا ۔
جنگ کی دھمکیوں اور علاقے میں طیار بردار جنگی بیڑے اور بمبار طیاروں کی تعیناتی کا جہاں تک تعلق ہے، امریکا علاقے میں کشیدگی کی وجہ سے عرب ممالک سے جو فائدہ اٹھا رہا ہے وہ اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا ہے۔
ٹرمپ نے سعودی عرب سے پیسے وصول کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور انہوں نے اس خواہش کو برملا کرنے میں کوئی دریغ بھی نہیں کیا ۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا اگر اپنی حمایت بند کر دے تو سعودی حکومت ایک ہفتہ بھی باقی نہیں رہ پائے گا ۔
سب سے اہم بات یہ ہےکہ اپنی سیکورٹی کے لئے امریکا کو اربوں ڈالر دینے اور امریکا اور چین کے بعد دنیا میں اپنی فوج پر سب سے زیادہ خرچ کرنے کے بعد بھی سعودی عرب اتنا کمزور ہے کہ یمنی ڈرون طیاروں کے حملوں کو نہیں روک سکتا ۔