حسن نصر اللہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے، اسلامی مزاحمت اسرائیل کو عہد حجری میں پہنچا سکتی ہے : رای الیوم
مشہور عربی اخبار رای الیوم نے اپنے اداریہ میں لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے تازہ انٹرویو کا جائزہ لیا اور لکھا کہ ان کا بیان، وسیع اطلاعات اور علاقے کے دقیق جائزے پر مبنی تھا۔
رای الیوم نے لکھا کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنے حالیہ خطابوں میں اسرائیل کی غاصب حکومت کے خلاف دھمکی بھرا لہجہ استعمال نہیں کیا تھا تاہم انہوں نے المنار ٹی وی کے رپورٹر عماد مرمل سے گفتگو کرتے ہوئے بہت ہی ٹھوس لہجے میں باتیں کیں ۔
ان کے جوابوں سے ان دنوں کی یاد آگئی جب وہ حزب اللہ کے نئے نئے سکریٹری جنرل بنے تھے کیونکہ انہوں نے صیہونی دشمنوں سے وسیع مقابلے کی حکمت عملی کی بات کی اور کہا کہ یہ جد و جہد صرف لبنان اور مقبوضہ الجلیل کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اتنا وسیع ہو جائے گا کہ مشرق وسطی کے نقشے سے غاصب صیہونی حکومت کے پوری طرح سے مٹ جانے کا بھی امکان ہے ۔ اپنے اس انٹرویو میں سید حسن نصر اللہ نے متعدد نکات کی جانب اشارہ کیا ہے جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
انہوں نے کہا کہ اب مزاحمتی تحریک کسی بھی وقت سے زیادہ مضبوط ہے اور وہ اسرائیل کو پوری طرح سے تباہ کرکے اسے عہد حجری میں پہنچا سکتا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے ایک بار پھر اس بات کی تاکید کی کہ مزاحمت کے میزائل بہت دقیق ہو چکے ہیں اور وہ شمالی اسرائیل کے ناقورہ سے لے کر جنوبی حصے ایلات تک کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔
انہوں نے الجلیل پر حملے اور اسے آزاد کرانے کو اسٹراٹیجک ترجیح قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جارحیت کے مقابلے میں حزب اللہ کی میزائل ڈیفنس اسرائیل کے شہروں پر حملے کے لئے نہیں بلکہ زمینی سطح پر پیشرفت کے لئے ہے ۔
33 روزا حنگ میں شکست کے بعد اسرائیلی فوج کے حوصلے بڑھانے میں صیہونی حکمرانوں کی ناکامی سے یہ ثابت ہو گیا کہ صیہونی فوج میں فتح کے لئے نہ تو ضروری حوصلے موجود ہیں اور نہ ہی اس میں اس کی توانائی ہے ۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران یہ پہلی بار ہے کہ جب کسی عرب یا مسلم گروہ کے رہنما نے مقبوضہ فلسطین میں مسجد الاقصی کی آزادی کے بعد اس میں نماز پڑھنے کی بات کہی ہے ۔ سید حسن نصر اللہ بیت المقدس اور تمام فلسطین کی آزادی کی خواہش رکھتے ہیں اور فوجی تصادم نیز جد و جہد کے ذریعے اپنی اس خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سینچری ڈیل یا فضول کے مذاکرات جیسی چیزوں پر اعتماد نہیں کرتے جن کا نتیجہ عرب دنیا کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلا ہے۔
سید حسن نصر اللہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کون سی بات کب کہنی ہے ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بولتا اور دھوکہ نہیں دیتا تو ہم کوئی نئی بات نہیں کرتے اور اسی وجہ سے اسرائیل کے لوگوں کے درمیان بھی ان کا کافی اعتماد ہے۔ وہ سب ہی ان کی باتوں پر اعتماد کرتے ہیں لیکن وہ اپنے وزیر اعظم نتن یاہو سمیت کسی بھی اسرائیلی رہنما کی باتوں پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے ۔
سید حسن نصر اللہ کی باتوں میں مستقبل قریب میں کسی بھی جنگ میں مضبوطی کے ساتھ اترنے کا ٹھوس ارادہ بھی دکھائی دیتا ہے یعنی انہوں نے جو بات کہی ہے وہ دشمن کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کرنے کے لئے نہیں بلکہ ٹھوس اطلاعات اور سیاسی و فوجی حالات کے دقیق جائزے پر مبنی ہے ۔
وہ اب تک دو جنگوں میں شامل ہوئے اور دونوں میں فاتح رہے ۔ پہلی جنگ دو ہزار کی تھی جس میں حزب اللہ نے جنوبی لبنان کو آزاد کرایا اور اسرائیل کی جارحیت ختم کر دی ۔ دوسری جنگ دو ہزار چھ کی تھی جس میں صیہونی حکومت نے لبنان پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اسے بھاری قیمت چکانی پڑی تھی اور اس کی فوج کے حوصلے پست ہوگئے تھے ۔ یہ ایسی فوج تھی جسے فاتح کہا جاتا تھا ۔ اب لگتا ہے کہ تیسری جنگ بھی دور نہیں ہے خاص طور پر جب علاقے میں جنگ کی آگ اسرائیل کی جانب سے بھڑکائی جائے ۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان