ڈالرکا مستقبل اور اسلامی دینار کی واپسی کے حقائق
امریکا نے نورڈ اسٹریم اور ترک اسٹریم گیس پائپ لائنوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور روس، یورپ اور ترکی کی کمپنیوں کے اثاثے ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں کیونکہ ان کمپنیوں نے تیل پائپ لائن کے دونوں منصوبوں میں سرمایہ کاری کی تھی ۔ امریکا کے اس اقدام سے سب پر یہ واضح ہو گیا کہ اس امریکی غنڈہ گردی کے خلاف اجتماعی طور پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
امریکی پابندیوں کا دائرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور دنیا کے نئے نئے ممالک روزانہ اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں اور اب تو چین، روس، شمالی کوریا اور کینیڈا جیسے ممالک اور زیادہ تر یورپی ممالک بھی اس امریکی پابندیوں کا شکار ہو رہے ہیں، ایران اور اس کے اتحادی تو برسوں سے اس عذاب کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اب امریکی پابندیوں کی پالیسی سے عالمی امن اور استحکام کو خطرہ پیدا ہو رہا ہے اور یقینی طور پر اس کا خمیازہ امریکا کو بھگتنا پڑے گا۔
امریکی پابندیوں کے ہتھیار کی دھار ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے عالمی اقتصاد پر ڈالر کے تسلط کو ختم کرنا ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ چین اور روس نے مقامی کرنسیوں کے استعمال پر اتفاق کیا ہے۔ چین نے گولڈن یووان کے سہارے اگلے پانچ برسوں میں ڈالر کے تسلط کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے گزشتہ سنیچرکو اعلان کیا کہ ان کا ملک، ایران، ترکی اور قطر کے ساتھ مل کر ایسا نظام قائم کرنے کی بات کر رہا ہے جس میں آپسی تجارت کے لئے سونے کا استعمال کیا جائے گا اور انہوں نے کوالالامپور سربراہی اجلاس میں "اسلامی دینار" کی واپسی کی بھی تجویز رکھی تاکہ اس طرح سے امریکی پابندیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔
پوری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ ہے اس لئے چین اور روس کے ساتھ مل کر اسلامی ممالک ایک بڑا اقتصادی زون قائم کر سکتے ہیں جہاں ڈالر کا کوئی تسلط نہ رہے۔
کہتے ہیں کہ لیبیا کے سربراہ معمر قذافی نے جو "افریقی دینار" کا نظریہ پیش کیا تھا اسے نافذ بھی کر دیا گیا تھا، وہی چیز ان کے خلاف نیٹو کی فوجی کاروائی کا سبب بنی تھی جس کے بعد ان کو بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
ٹرمپ پوری دنیا سے تو لڑ نہیں سکتے اور نہ پابندیاں عائد کرکے پوری دنیا کے اقتصاد کو تباہ کر سکتے ہیں اس لئے انہیں جواب دینے کے لئے ڈالر کا متبادل تلاش کرنا ضروری ہے اور میرے خیال میں یہ کام شروع ہو چکا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں اس میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان
* سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہيں ہے*