شام میں غرق ہوتا اردوغان کا وجود، السراقب سے دہشت گردوں کا خاتمہ، حزب اللہ اور ایران کا کیا ہے کردار؟ (دوسرا حصہ)
روسی صدر ولادیمیر پوتین نے ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کو گرین سگنل تب دیا جب السراقب شہر میں کامیابی یقینی ہوگئی، یعنی پوتین چاہتے ہیں کہ ادلب کے بارے میں گفتگو میں اردوغان کسی طرح مضبوط پوزیشن میں نہ ہوں ۔
روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ روس اب شام میں ترکی کے جنگی طیاروں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتا کیونکہ شام نے شمالی علاقوں میں اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شام اور روس کے ائیر ڈیفنس سسٹم اس علاقے میں ترکی کے جنگی طیاروں کو مار گرائیں گے۔ یہیں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ دو دن میں ترکی کے آٹھ ڈورن سرنگوں کیوں ہوئے؟
اردوغان نے روس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ درمیان سے ہٹ جائے اور ترکی کو شامی فوج سے مقابلہ کرنے دے، اس کے جواب میں روس کی جانب سے جو بیان سامنے آئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردوغان حالات کو سمجھ نہيں پا رہے ہیں اس لئے وہ اس طرح کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اردوغان نے جس آپریشن کا اعلان کیا ہے وہ موجودہ حالات میں کسی بھی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے گا کیونکہ روس وسیع پیمانے پر شامی فوج کی حمایت کر رہا ہے اور حزب اللہ کے جوان محاذ پر پہنچ چکے ہیں ۔ ایران کے فوجی مشاور بھی محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔ ترکی کی یہ حالت ہے کہ اس کے سارے اتحادیوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے، نہ تو نیٹو سامنے آیا ہے اور نہ ہی امریکا مدد کے لئے آگے بڑھا ہے۔
ہم ایک بار پھر کہتے ہیں کہ ایران کے صدر نے تہران یا ماسکو میں، ایران، شام اور ترکی کے سربراہی اجلاس کی جو تجویز دی ہے وہ اردوغان کے سامنے خود کو اور اپنے ملک کو بحران سے بچانے کی بہترین تجویز ہے، وہ چاہیں تو اس میں روس کو بھی شامل کر لیں۔
اردوغان کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں روسی صدر ولادیمیر پوتین اور دہشت گرد گروہ نصرہ فرنٹ کے اتحادی نہیں بن سکتے جنہیں روس کے ساتھ دوسرے ممالک بھی دہشت گرد گروہ کہتے ہیں۔
بشکریہ
عبد الباری عطوان
عرب دنیا کے مشہور تجزیہ نگار
* مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*