جمال خاشقجی کے قتل کے 6 سعودی ملزمان پر فرد جرم عائد
ترکش پراسیکیوٹر نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے پر 6 نئے سعودی ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔
ترکی کے خبررساں اداے آناطولو کی رپورٹ کے مطابق استنبول کے پراسیکیوٹر نے 2 ملزمان کے لیے عمر قید جبکہ بقیہ 4 کے لیے 5 سال جیل کی سزا کی درخواست کی ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 6 ملزمان پر صحافی کی دوسری برسی سے چند روز قبل فرد جرم عائد کی گئی جو ترکی میں موجود نہیں ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانا چاہیئے۔
جولائی میں شروع کیے گئے ایک الگ مقدمے میں استنبول کی عدالت نے جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی شہزادے کے 2 سابق معاونین کے علاوہ 20 سعودی شہریوں کے خلاف غیر حاضری میں کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
ترک پراسیکیوٹر نے انکشاف کیا کہ سعودی ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد العسیری اور شاہی دربار کے میڈیا معاملات دیکھنے والے سعود القنطانی نے اس آپریشن کی سربراہی کی اور سعودی ہٹ ٹیم کو احکامات دیئے۔
ترک حکام کے مطابق جمال خاشقجی کو گلہ دبا کر قتل کیا گیا تھا اور 15 افراد پر مشتمل سعودی اسکواڈ نے سعودی قونصلیٹ کے اندر ان کی لاش کے ٹکڑے کردیئے تھے اور ان کی باقیات ابھی تک نہیں ملیں۔
جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں 20 سعودی شہریوں کے خلاف پہلے ہی استنبول کی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔
انسٹاگرام پر آپ ہمیں فالو کر سکتے ہیں
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کے احکامات سعودی حکومت کے 'انتہائی اعلیٰ سطح' سے دیے گئے تھے ان کا اشارہ براہِ راست سعودی ولیعہد بن سلمان کی جانب تھا۔
رواں ماہ کے اوائل میں سعودی عدالت نے گزشتہ برس بند کمرے میں ہونے والی سماعت کے نتیجے میں 5 افراد کو سنائی گئی سزائے موت ختم کر کے انہیں 20 سال کی قید میں تبدیل کردیا تھا۔
جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ملزمان کو قید کی سزائیں ایسے وقت میں سنائی گئیں کہ جب انسانی حقوق کے اکثر عالمی حلقے سعودی ولیعہد بن سلمان اور ان کے دو قریبی دوستوں سعود القحطانی اور احمد عسیری کو جمال خاشقجی کے قتل کا اصل ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا اور حتی وہ ایک بار بھی عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔
اس سے قبل بن سلمان نے امریکی ٹیلی ویژن چینل بی بی ایس سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی عناصر کے توسط سے جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس کیس نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کیا تھا۔
متعدد عالمی تنظیموں نے بارہا صحافی جمال خاشقجی قتل کیس کی آزانہ تحقیقات کرائے جانے کا مطالبہ کیا، تاہم قتل کی اصل ملزم آل سعود نے اسے مسترد کرتے ہوئے خود ہی ایک عدالت سجا کر ملزموں کے خلاف کاروائی کی نمائش شروع کر دی۔
خیال رہے کہ واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ 59 سالہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018 کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصلیٹ اندر قتل کر کے ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے گئے تھے۔ مقدمے میں نامزد تمام ملزمان سعودی شہری ہیں۔