اردن کے رکن پارلمان نے عالم عرب سے کچھ چبھتے ہوئے سوالات کر ڈالے
اردن کے رکن پارلمان نے بے ضمیر عرب حکام سے سوالات کے ذیل میں سوئی ہوئي امت کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔
اردن کے رکن پارلمان طارق خوری نے خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ عرب حکام کے خیانت آمیز تعلقات کے تناظر میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں کچھ غور طلب سوالات مسلم بالخصوص عرب حکام سے کئے ہیں:
کیا وہ لوگ جنہوں نے فلسطین کے ساتھ غداری کی، شیعہ تھے ؟!
کیا وہ لوگ جنہوں نے لیبیا کو تباہ کیا اور لیبیا کے عوام کا قتل کر رہے ہیں، شیعہ ہیں؟!
کیا وہ افراد جو عراق، شام، سعودی عرب، کویت وغیرہ میں خود کش حملے کرتے ہیں سب کے سب شیعہ ہیں؟!
کیا وہ لوگ جنہوں نے مسجدِ اقصی کو آگ لگائی، شیعہ تھے؟!
کیا وہ شیعہ تھے جنہوں نے صومالیہ کو تباہ کیا؟!
کیا وہ امریکی طیارے جنہوں نے بغداد پر بمباری کی وہ شیعہ ہوائی اڈوں سے پرواز کرتے تھے؟!
کیا وہ دھماکے جو مصر کے صحرائے سینا میں ہوتے ہیں، وہ شیعہ انجام دیتے ہیں؟!
کیا القاعدہ، داعش اور جبہۃ النصرہ سب شیعہ ہیں؟!
کیوں صہیونیوں کے درمیان خودکش حملے نہیں ہوتے بلکہ صرف مسلمانوں کے بیچ ہوتے ہیں؟!
کیا قرضاوی (انتہاپسند وہابی مولوی) شیعہ علماء میں سے ہے؟! جس نے ہر حرام کو حلال کر دیا ہے؟!
خوش نصیب ہیں صیہونی جو یہ کام کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ہم اپنی بندوقوں سے ایک دوسرے پر نشانہ سادھیں اور وہ آرام و سکون کے ساتھ یہودی آبادکاریاں کرتے رہیں اور بیٹھ کر ہم پر قہقہے لگاتے رہیں!!
ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی، لیبیائی، تیونسی وغیرہ ہر روز خود کش کاروائیاں کرتے ہیں اور مقبوضہ فلسطین جس کا اقتدار صہیونیوں کے پاس ہے، کے علاوہ تمام اسلامی ممالک میں بم دھماکے کرتے پھرتے ہیں!
کیوں اہل سنت ایران کے شاہ کے زمانے میں شاہ کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے جبکہ شاہ بھی شیعہ تھا؟ مخالفت تو دور کی بات بلکہ اہل سنت سب اس کے مطیع تھے!
آپ حزب اللہ لبنان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ کیوں فلسطین کو آزاد نہیں کرتے جبکہ وہ ایک گروہ اور مختصر فورس ہیں لیکن دوسری طرف عرب اور اسلامی حکومتیں یہودیوں (صیہونیوں) کے ساتھ کھلم کھلا دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات قائم کر رہی ہیں اور ان میں کے آخری اردوغان ہیں؟
بہرحال میں نے اپنی رائے دی ہے اور آپ بھی اپنی رائے دیں لیکن یاد رکھیں جب کسی خلیجی (خلیف فارس کے) شہری نے مقبوضہ فلسطین میں اپنی شہادت پیش کی تو اس دن میں اپنی رائے بدل دوں گا۔
جب میں یہ دیکھوں کہ داعش اور القاعدہ کا پرچم اسرائیل کی پارلیمنٹ پر لہرا رہا ہے اور عرب ممالک نے اسرائیلی سفارتخانے بند کر دیے ہیں، اس دن میں یقین کر لوں گا کہ میں نے غلط کہا اور میں اپنی لفظوں کو واپس لے لوں گا۔