جمال خاشقجی کے قتل میں بن سلمان کے ملوث ہونے پرمبنی امریکہ کی نئی رپورٹ پر سعودی عرب آگ بگولہ
جمال خاشقجی کے قتل میں بن سلمان کے ملوث ہونے پر مبنی امریکہ کی نئی رپورٹ پر سعودی عرب نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔
امریکہ کے قومی انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سعودی حکومت کے مخالف صحافی جمال خاشقجی کو گرفتار یا قتل کرنے کا حکم خود سعودی ولی عہد بن سلمان نے دیا تھا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اس اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ امریکی انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ کی رپورٹ کے نتائج توہین آمیز اور من گھڑت ہیں۔
امریکہ کے قومی انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاہی دربار کے فیصلوں کا کنٹرول بن سلمان کے ہاتھ میں ہے، جمال خاشقجی کے قتل کی پوری کارروائی میں ان کا ایک مشیر اور ایک ذاتی محافظ براہ راست ملوث ہیں جبکہ سعودی ولی عہد کی جانب سے جمال خاشقجی سمیت دوسرے مخالفین کی گرفتاری یا انہیں قتل کرنے کی حمایت بھی کی جاتی رہی ہے۔
سعودی ولی عہد پر کڑی نکتہ چینی کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کو اکتوبر دوہزار اٹھارہ میں ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا۔اس سے پہلے سی آئی اے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم براہ راست سعودی ولی عہد بن سلمان نے دیا تھا تاہم اس نے اس بارے میں ثبوت اور شواہد پیش نہیں کیے تھے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر نے بھی دوہزار انیس کو پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کے انتہائی خراب ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ بات بعید ہے کہ سعودی ولی عہد جمال خاشقجی کے قتل کی کارروائی سے بے خبر ہوں۔امریکہ نے جہاں جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے رپورٹ جاری کی وہیں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ سعودی ولی عہد بن سلمان سے کسی بھی سطح پر ملاقات نہیں کریں گے۔
اس پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ تازہ امریکی رپورٹ اور مجموعی طور پر بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں کا بن سلمان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟ کہا یہ جارہا ہے کہ بن سلمان کی سیاسی پوزیشن اندرون ملک کافی کمزور ہوگئی ہے، سعودی ولی عہد جنہوں نے امریکی حمایت پر تکیہ کر رکھا تھا، ٹرمپ کی شکست کے باعث اپنے اہم ترین حامی سے محروم ہوچکے ہیں۔ خاشقجی قتل کیس کی رپورٹ کے اجرا نے بن سلمان کے وحشی پن کو اور بھی زیادہ نمایاں کردیا ہے۔ بنا برایں سعودی شاہی خاندان میں یہ سوچ پیدا ہوگی کہ بن سلمان کے بادشاہ بننے کی صورت میں سعودی عرب کی حیثیت کو دھچکا لگے گا۔ لہذا بن سلمان کے خلاف درون خانہ اشتعال پیدا ہوسکتا ہے۔اگرچہ اس بات کا بھی امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ بائیڈن انتظامیہ سعودی ولی عہد کے خلاف پابندیاں عائد کرے گی تاہم بن سلمان پر بیرونی اور خاص طور سے رائے عامہ کے دباؤ میں ضرور اضافہ ہوگا۔