عراقی وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب پر منفی ردعمل
عراق کے وزیراعظم مصطفی الکاظمی کے دورہ سعودی عرب پر عراق کی مختلف شخصیات نے منفی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
عراق کے وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے گذشتہ بدھ کو سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں اعلی سعودی حکام سے ان کی ملاقات و مذاکرات ہوئے۔
عراقی وزیراعظم کے دورہ ریاض میں عراق اور سعودی عرب کے درمیان کئی سمجھوتوں پر دستخط بھی ہوئے جن میں بیشتر اقتصادی شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔
مصطفی الکاظمی کے دورہ سعودی عرب پرعراق کی مختلف شخصیات کی جانب سے ملا جلا ردعمل کا اظہار کیا گیا اور بعض نے اس دورے پر اپنی مخالفت کا اظہار کیا۔ عراقی وزیراعظم کے دورہ ریاض کی مخالفت کرنے والی شخصیات میں نجف اشرف کے امام جمعہ بھی شامل ہیں۔
عراق کے مقدس شہر نجف اشرف کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین صدرالدین قبانجی نے کہا ہے کہ اس بات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ بعض عرب ممالک دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور انھوں نے عراقی قوم کے خلاف جنگ شروع کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عراق کسی ملک کا غلام نہیں ہے تاہم وہ عراق کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات کی تقویت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
البتہ انھوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ اس بات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ بعض عرب ممالک عراق کی صدام حکومت کا ساتھ دیتے ہوئےعراقی عوام کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے اور ان ممالک نے داعش کے ساتھ مل کرعراق میں جنگ بھی شروع کی۔
نجف اشرف کے امام جمعہ کی جانب سے سعودی عرب پر بعثی صدام حکومت کی حمایت اور اسی طرح عراق میں دہشت گردوں کی حمایت کے تعلق سے تنقید قابل غور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب، ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں صدام حکومت کی حمایت کرتا رہا اور اس نے ہی عراقی عوام کی سرکوبی میں صدام کا بھرپور ساتھ دیا۔ اگرچہ کویت پر صدام حکومت کے حملے کے بعد عراق اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے اور صدام دور حکومت میں یہ تعلقات مسلسل منقطع رہے تاہم اس بات کے پیش نظر کہ عراق کی بیشتر آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے سعودی عرب دنیائے عرب میں فرقہ وارانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا رہا اور وہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف تشدد و جارحیت کی ہمیشہ حمایت کرتا رہا۔
صدام اور تکفیری دہشت گردوں کے لئے سعودی عرب کی یہ حمایت عراق کی مختلف شخصیات اور عوام کے اذہان سے کبھی دور نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب کے اگرچہ صدام حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے مگر پھر بھی وہ عراق میں صدام کا اقتدار باقی رہنے کی حمایت کرتا رہا اس لئے کہ صدام، نظریاتی اعتبار سے آل سعود سے قریب تھا اورعراق میں کسی بھی طرح کی شیعہ حکومت، سعودی عرب کی آل سعود حکومت کے مفادات کے مطابق نہیں تھی۔
علاوہ ازیں سعودی عرب کی حکومت حالیہ دو عشروں کے دوران عراق میں دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش کی حمایت کرتی رہی ہے جس پر عراق کی مختلف شخصیات و مفکرین کی جانب سے احتجاج کے علاوہ اس مسئلے کو اٹھایا بھی جاتا رہا۔
عراق کی صدام حکومت کے دور اور حالیہ دو عشروں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے جس قسم کی پالیسیاں اختیار کی گئیں ان سے عراق کی مختلف شخصیات اور عوام میں سعودی عرب کے سلسلے میں بدگمانی اور عدم اعتماد بھی کافی بڑھا ہے اور سعودی عرب سے عراقی حکام اور عوام میں یہ بدگمانی و ناراضگی عراق میں مصطفی الکاظمی کے دور حکومت میں جاری رہی ہے۔