افغانستان میں امریکہ کا جنگی مشن ایک بار پھر سرگرم
افغانستان میں بیس سالہ ناکام موجودگی کے بعد امریکہ اب بھی افغانستان کو اسکے حال پر چھوڑنے پر تیار نہیں اور اُس نے ایک بار پھر طالبان کے خلاف آپریشن کے بہانے افغانستان کے مختلف علاقوں میں فضائی بمباری شروع کر دی ہے۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں طالبان کے خلاف امریکی جنگی مشن کے فعال ہوجانے کی خبر دی ہے۔
افغان وزارت دفاع کے بیان کے مطابق امریکہ کے بی 52 قسم کے بمبار طیاروں نے صوبہ جوزجان میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔
افغان وزارت دفاع کے بیان کے مطابق صوبہ جوزجان کے مرکز میں امریکی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 200 طالبان مارے گئے ہیں۔
افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان فواد امان نے کہا ہے کہ شبرغان شہر میں ہفتے کی شام مقامی وقت کے مطابق ساڑھے چھے بجے ایک ہوائی حملے میں 200 سے زاید طالبان جنگجو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ اس دوران بڑی مقدار میں طالبان کا اسلحہ اور گاڑیاں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔
طالبان نے اس حوالے سے ابھی تک کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، یہ ایسی حالت میں ہے کہ طالبان نے ہفتے کے روز شبرغان شہر کے مرکز پر قبضہ کیا تھا۔
اس سے قبل نیویارک ٹائمز نے امریکی ذرائع کے حوالے سے خـبردی تھی کہ امریکہ بی 52 اور اے سی 130 کے بمبار طیاروں کے ذریعے ہرات، قندھار اور لشکرگاہ شہروں میں طالبان جنگجووں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے والا ہے۔
طالبان کے خلاف امریکہ کے یہ فضائی حملے امریکی صدر جوبایڈن کے حکم کے تحت کئے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے ایسے حالات میں اپنی فوج کو طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کے احکامات جاری کئے ہیں کہ امریکہ بیس سال تک افغانستان پر قابض رہا اور اس دوران وہ نہ صرف یہ کہ دہشتگردی کو لگام دینے اور طالبان کی سرکوبی میں مکمل طور پر ناکام رہا بلکہ ماہرین کے مطابق اُس نے افغانستان میں دہشتگردی اور بد امنی کو خوب ہوا دی اور اُسے عروج تک پہنچایا۔