سعودی عرب کے ابہا ائیرپورٹ پر تحریک انصار اللہ کا بڑا حملہ، کیا کسی ڈیل کا نتیجہ ہے؟
یمن کی صنعا حکومت کی مسلح افواج کے ترجمان یحیی السریع کا بیان بہت اہم تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے سعودی عرب کے ابہا ائيرپورٹ پر اہم فوجی ٹھکانے پر حملہ کیا اور ہمارے میزائل سٹیک طریقے سے اپنے نشانے پر لگے۔
ادھر سعودی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے بھی یہ حملہ ہونے کا اعتراف کیا ہے تاہم یہ کہا ہے کہ میزائل اور ڈرون کو نشانے پر لگنے سے پہلے ہی مار گرایا گیا، جبکہ اس کا ملبہ گرنے سے 12 افراد زخمی ہوگئے۔
سعودی عرب کے اندر ڈرون حملوں کا پھر سے شروع ہو جانا، یہ بتاتا ہے کہ تحریک انصار اللہ اور امارات کے درمیان کوئی ڈیل ہوئی ہے۔
گزشتہ ایک مہینے کے دوران تحریک انصار اللہ نے امارات پر کئی حملے کئے جو اب رک گئے ہیں اور دوسری جانب یمن کے اندر شبوہ اور مآرب میں امارات کے حمایت یافتہ جاینٹ بریگيڈ نام کی آرمڈ تنظیم پسپائی اختیار کر گئی۔
امارات کی حالت ایسی ہے کہ وہ ڈرون اور میزائل حملے برداشت نہیں کر سکتا۔ اس ملک کا اقتصاد غیر ملکی سرمایہ کاری اور سیاحت پر کافی حد تک منحصر ہے۔ اب اگر حالات خراب ہوئے تو اس سیکٹر کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔
تحریک انصار اللہ نے امارات پر حملہ روک کر سعودی عرب پر حملے شروع کر دیئے ہیں تو اس سے سعودی عرب اور امارات کے تعلقات میں بھی نئی تبدیلی پیدا ہوگی۔ ویسے بھی جس وقت امارات پر ڈرون حملے ہوئے سعودی عرب نے سب سے آخر میں اس کی مذمت کی تھی۔
یمن کی فوج اور تحریک انصار اللہ سعودی عرب کو اپنا پہلے نمبر کا دشمن مانتے ہیں۔ اسی لئے 2019 میں یمن سے امارات کے فوجیوں کے انخلا کے بعد سے اس نے امارات سے تصادم چھوڑ کر سعودی عرب کے اندر کچھ ٹھکانوں پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔
یمنی فوج اور رضاکار فورس یمن سے ملنے والے سعودی عرب کے علاقوں کے اندر داخل ہوئی اور جتنے علاقے ہو سکتے تھے، آزاد کرائے، اس طرح سعودی عرب کو سخت پیغام دینے کی کوشش کی گئی۔
سعودی عرب کے جنوبی علاقوں یعنی جازان، نجران اور عسیر کے علاقوں پر قبضے کے بعد تحریک انصار اللہ اور یمنی فوج نے اسے اپنے علاقوں کی آزادی کا نام دیا۔ یعنی یہ پیغام دیا کہ طائف سمجھوتے کے تحت 100 سال کی لیز پر سعودی عرب کے قبضے میں جانے والے ان علاقوں کو یمن اپنا علاقہ مانتا ہے۔
جنگ یمن آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اور بھی تیز ہوگا کیونکہ اب یہ مسئلہ چین اور روس کی بھی حکمت عملی کے مرکز میں آ گئی ہے۔ یہ مشرق وسطی اور دنیا کے الگ الگ علاقوں میں امریکی پیٹھ کمزور کرنے کی لڑائی ہے۔ امریکا جنوبی یمن پر کنٹرول کرکے آبنائے باب المندب کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ اس آبی راستے سے گزر کر افریقہ جانے والے چینی جہازوں کے لئے سختی پیدا کرنا ممک ہو۔
امریکا نے متحدہ عرب امارات پر دوباؤ ڈال کر آبنائے باب المندب پر کنٹرول بڑھانے کی کوشش کی تھی، اسی کوشش کے تحت شبوہ اور مآرب میں یمنی فوج اور رضاکار فورس کے ٹھکانوں پر حملے تیز کروائے گئے تھے تاہم یہ منصوبہ بھی ناکام رہا۔
اس وقت تائیوان اور یوکرین کے علاقے میں چین اور روس سے امریکا اور نیٹو کا تصادم بڑھ رہا ہے۔
ان حالات میں جنگ یمن بھی شائد تیز ہو جائے گی تاہم یہ بھی سچائی ہے کہ اب یمن کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں بچا جبکہ یمن کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکانے والوں کو بہت کچھ کھونا پڑ سکتا ہے۔
بشکریہ
عبد الباری عطوان
عرب دنیا کے مشہور تجزیہ نگار
*مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہيں ہے*