طالبان کے ہاتھوں ہزارہ اور تاجیک صحافیوں کی گرفتاری
افغان صحافیوں نے طالبان کے ہاتھوں تاجیک اور ہزارہ صحافیوں اور نامہ نگاروں کو ڈرانے دھمکانے ، گرفتار کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے پر سخت تشویش ظاہرکی ہے
ایسوشی ایٹڈ پریس نے رپورٹ دی ہے کہ افغانستان میں صحافت کا کام کرنا خطرناک ہوگیا ہے اور صحافیوں نے صحافت کے کام کو مشکل اور پریشان کن قرار دیا ہے۔
افغان صحافیوں نے ایسوشی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انھیں رپورٹیں تیار کرتے وقت طالبان کے وضع کردہ اصول و قوانین کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
افغانستان کے تاجیک نژاد صحافی فیصل مدرس کو ابھی کچھ دنوں پہلے طالبان نے گرفتار کرلیا تھا،ان کا کہنا ہے کہ وہ آٹھ دن تک جیل میں رہے اور ان پر تشدد کیا گیا۔
فیصل مدرس کا تعلق پنجشیر سے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ پنجشیرکا ہونے کی بنا پر انھیں خوف لاحق رہتا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزارہ اور دیگر نسلی اقلیتوں کے صحافیوں کو بھی ہمیشہ اپنی جان کا خطرہ رہتا ہے اور بڑی تعداد میں ہزارہ صحافیوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس سلسلے میں عبوری طالبان حکومت کے نائب ترجمان بلال کریمی نے کہا کہ تنقیدیں قابل برداشت ہیں لیکن وہ تعمیری ہونا چاہئیں۔ان کا کہنا ہے کہ بعض انتہاپسند طالبان اہلکاروں نے کچھ صحافیوں کو گرفتار کیا تھا۔