سعودی اتحاد کے ہاتھوں یمن میں ہزاروں بچوں کا قتل عام
یمن میں جارح سعودی اتحاد کی جارحیتوں کا سلسلہ جاری ہے اس دوران سعودی اتحاد کے ہاتھوں اب تک تین ہزار سے زائد یمنی بچے شہید ہوئے۔ دوسری جانب یمنی اراکین پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمن کے سلسلے میں اپنی انسانی اور اخلاقی ذمہ داریوں پرعمل کریں۔
سعودی اتحاد کے جاسوس اور ڈرون طیاروں نے یمن کے مختلف صوبوں منجملہ مآرب، حجہ، جوف، صعدہ، تعز، بیضا اور ضالع کی فضا میں پروازیں کرتے ہوئے جارحیت کا مظاہرہ کیا اور جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔
اس رپورٹ کے مطابق سعودی اتحاد نے یمن کے مختلف علاقوں من جملہ مآرب، تعز، حجہ، الجوف، صعدہ، الضالع اور البیضاء" پر راکٹ اور توپ خانے سے حملے کئے اور یمنی فوج اور عوامی رضاکار فورس کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔ یمن کے مختلف صوبوں پر سعودی اتحاد کی جارحیت جاری ہے اور اس اتحاد کی جانب سے جنگ بندی کی رعایت نہیں کی جا رہی ہے۔
یہ حملے ایسی حالت میں کئے گئے ہیں کہ یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کے ترجمان نے سعودی اتحاد کی جانب سے یمن میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کئے جانے پر بارہا خبردار کیا ہے۔
یمنی عوام کے خلاف مسلط کردہ سعودی اتحاد کی جنگ میں تین ہزار ایک سو سے زائد بچے شہید ہوئے ہیں۔ یمن پر سعودی جارحیت کے نتیجے میں اب تک دسیوں ہزار یمنی شہید و زخمی ہوئے ہیں جبکہ چالیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
یمن میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے والے یمنی اتحاد نے اتوار کے روز ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ یمن کے خلاف مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ، یمنی بچوں کے خلاف کئی عشروں کی مسلط کردہ جنگ کے مترادف ہے اس لئے کہ یمنی عوام کے خلاف مسلط کردہ اس جنگ کے دوران اب تک سعودی اتحاد کے ہاتھوں تین ہزار ایک سو بیاسی بچے مارے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سات سو پنچانوے لڑکے اور تین سو ستاسی لڑکیاں شامل ہیں اور یہ بچے یمن کے بیس صوبوں میں شہید ہوئے ہیں جبکہ دیگر صوبوں میں مارے جانے والے یمنی بچوں کی تعداد اس تعداد سے جدا ہے۔
یمن میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے والے یمنی اتحاد نے اتوار کے روز اپنی رپورٹ میں یہ بھی اعلان کیا کہ یمن میں خواتین کے خلاف سعودی اتحاد کی جارحیت میں ترسٹھ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
یمن میں اسپتالوں اور طبی مراکز پر ہونے والے حملے اس بات کا باعث بنے ہیں کہ خواتین طبی خدمات سے محروم ہو گئیں جس کی بنا پر حاملہ عورتوں اور پیدا ہونے والے اپاہج و معذور بچے مزید مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں ۔ جبکہ رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یمن میں بارہ لاکھ خواتین کو غذائی قلت کا سامنا ہے جن میں نصف تعداد حاملہ عورتوں کی ہے۔
یمن کے مکمل محاصرے کی بنا پر اس ملک میں ہر سال آٹھ ہزار خواتین کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ یمن کو دواؤں کی بھی شدید قلت کا سامنا ہے۔
دریں اثنا یمن کے اراکین پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یمنی عوام کے مسائل و مشکلات کو سمجھے اور اپنے انسانی و اخلاقی فرائض پرعمل کریں۔
سعودی عرب نے چھبیس مارچ سنہ دو ہزار پندرہ سے یمن پر حملے شروع کئے اور اس نے اس ملک کی زمینی، ہوائی اور سمندری ناکہ بندی کر رکھی ہے۔