ڈھائی کروڑ افغان شہریوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے: اقوام متحدہ
افغانستان میں اقوام متحدہ کی انسان دوستانہ امداد کے کوآرڈینیٹر ادارے نے ڈھائی کروڑ کے قریب افغان شہریوں کی ابتر صورتحال کی جانب سے خبردار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسان دوستانہ امداد کے کوآرڈینیٹر ادارے، نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں شرح افلاس میں بری طرح اضافہ ہوگیا ہے اور اس وقت دو کروڑ چالیس لاکھ شہریوں کو محض زندہ رہنے کے لئے فوری امداد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ پریشان حال افغان شہریوں تک فوری امداد کا بندوبست کیا جائے۔ اسی کے ساتھ عالمی ادارہ خوراک نے بتایا ہے کہ ایک طرف افغانستان میں غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب درپیش موسم سرما کے لئے افغان عوام کے پاس مناسب تیاری نہیں ہے۔
عالمی ادارہ خوراک نے بتایا ہے کہ گذشتہ بیس سال کے قحط کا ریکارڈ افغانستان میں ٹوٹنے والا ہے۔
ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ افغانستان عالمی سطح پر خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمت نے بحران زدہ گھرانوں کو ابتدائی ضرورت کے وسائل سے بھی محروم کردیا ہے۔
ادھر یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو افغانستان کے ستانوے فیصد عوام خط افلاس سے نیچے چلے جائیں گے۔
دریں اثنا سیو دی چلڈرن نامی عالمی تنظیم نے ایک بیان جاری کرکے خبردار کیا ہے کہ فوری امداد فراہم نہ ہونے کی صورت میں دسیوں لاکھ افغان بچے موت کا شکار ہوجائیں گے۔
افغانستان کے موجودہ اقتصادی اور انسانی بحران کی اصل وجہ اس ملک پر امریکہ کے قبضے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر اپنے بیس سالہ قبضے کے دوران نہ صرف اس ملک کو قدرتی ذخیروں سے خالی کردیا بلکہ عدم استحکام پھیلا کر افغانستان کے اقتصادی، انتظامی اور فلاحی شعبوں کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ۔
امریکہ نے پندرہ اگست سن دو ہزار اکیس کو افغانستان سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے اپنے فوجیوں کو واپس بلا کر اقتدار طالبان کے حوالے کردیا لیکن اس کے بعد دس ارب ڈالر پر مشتمل افغان عوام کے اثاثوں کو منجمد کرکے، اس ملک میں انسانی صورتحال کو اور بھی پیچیدہ اور سنگین بنا دیا۔