سعودی عرب جنگ بندی پر مجبور، مگر انصار اللہ کا متحمل نہیں!
سعودی عرب سیزفائز میں بہت سنجیدہ ہے لیکن وہ انصاراللہ کو یمن کے حاکم کے طور پر قبول کرنے اور اس کے ساتھ صلح کے مذاکرات میں مشکل کا شکار ہے، یہ خیال ہے بین الاقوامی امور کے ماہر حسن ہانی زادہ کا۔
سحرنیوز/عالم اسلام: علاقائی امور کے ایک ماہر حسن ہانی زادہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے آٹھ سالہ جنگ کے بعد جو جنگ بندی اور سیز فائز ہوئی ہے، وہ میدانی جنگ میں اس کی شکست کی وجہ سے ہے۔ سعودی عرب نے 350 بلین ڈالر خرچ کرنے اور 17 انفینٹری اور میکانائز بریگیڈ کی تباہی اور 14 ملکوں کی افواج کے اتحاد کے بعد انصاراللہ کے مقابلے میں کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔
سیاسی امور کے اس ماہر اور تجزیہ نگار نے کہا کہ انصاراللہ نے سعودی عرب کی انتہائی اہم اور حیاتی تیل کی تنصیبات پر میزائلوں سے حملے کرکے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا جب کہ دوسری طرف امریکہ میں ڈیموکریٹس کی جیت کے بعد سعودی عرب کو اپنی تنہائی کا احساس ہونے لگا۔ اس ماہر نے مزید کہا کہ امریکہ میں ڈیموکریٹس کے درمیان سعودی عرب اور بن سلمان کے تخریبی کردار، خاشقچی کے قتل کی وجہ سے سعودی عرب، اس کے اقدامات اور اس کی علاقائی پالیسیوں کے خلاف منفی سوچ پیدا ہونے لگی جس کی وجہ سے سعودی عرب نے کوشش کی جہاں تک ممکن ہو سکے، اپنے کردار اور سیاست کو متوازن بنا کر چلے۔
علاقائی امور کے اس ماہر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف سے سعودی عرب نے ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کئے اور گزشتہ برس سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری ہے اور یہ بھی ایک فطری سی بات ہے کہ ایران نے بھی سعودی عرب سے کہا ہے کہ وہ یمن میں جاری جنگ کو ختم کرے اور ہم نے اس کے بعد دیکھا کہ سعودی عرب نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
ہانی زادہ نے عمانی وفد کے دورۂ صنعا، سیزفائز کی مدت میں توسیع اور صلح کے مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عمان کا ایک وفد حالیہ دنوں میں صنعا گیا ہے جہاں اس نے انصاراللہ سے گفتگو کی ہے۔ سعودی عرب یمن میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے لیکن اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ صلح تک پہنچنے کے مذاکرات کا عمل طولانی ہوگا۔
علاقائی امور کے اس ماہر نے یمن کے مسئلے میں ایران کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انصاراللہ نے ایک شرط یہ رکھی ہے کہ پائیدار صلح کے مذاکرات میں ایران کو بھی شامل کیا جائے۔ شاید سعودی عرب اس چیز کو قبول نہ کرے لیکن صلح کے مذاکرات کی ایک پیشگی شرط ایران کی ان مذاکرات میں موجودگی ہے۔ ہانی زادہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سیز فائر میں سنجیدہ ہے لیکن وہ یمن کے ساتھ پائیدار صلح کے معاملے میں انصاراللہ کی حکمرانی کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور وہ اس حوالے سے انصاراللہ کے ان مذاکرات میں شمولیت سے روکنے کے لئے مختلف ٹیکٹیکل اقدامات انجام دے گا۔
اگر صلح کے عمل کا آغاز ہو بھی جائے تو سعودی عرب اور یمن کے درمیان دوطرفہ مذاکرات بہت طویل ہوں گے۔ سعودی کوشش کریں گے کہ وہ انصاراللہ کے ہاتھ کچھ نہ لگنے دیں اور ان کو اس طرح کمزور کریں کہ یمن کی حکومت و اقتدار کے منظرنامے سے انصاراللہ کا خاتمہ ہو جائے۔