ٹرمپ کا غزہ منصوبہ صیہونی شکست چھپانے کی کوشش ہے : علاقائی مزاحمتی گروہوں کا ردعمل
علاقائی مزاحمتی گروہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق مجوزہ منصوبے کو صیہونی رژیم کو غزہ کی جنگ میں یقینی شکست سے بچانے کی ایک فریب کارانہ کوشش قرار دیا ہے
سحرنیوز/عالم اسلام: فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک اور یمن کی انصار اللہ تحریک نے اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کا یہ منصوبہ دراصل اسرائیل کو محفوظ راستہ دینے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
اسلامی جہاد کے سیکریٹری جنرل زیاد النخّالہ نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اورصیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی مشترکہ پریس کانفرنس دراصل "غاصبانہ قبضے کے تسلسل کا لائحہ عمل" ہے۔
ان کے مطابق، اسرائیل جنگ کے میدان میں جو کچھ حاصل نہ کرپایا ،اُسے اب امریکہ کے ذریعے علاقے میں مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔النخّالہ نے خبردار کیا کہ یہ امریکی-اسرائیلی منصوبہ خطے میں نئے خطرناک حالات پیدا کرے گا۔
یمن کی انصار اللہ تحریک کے سینئر رہنما محمد الفرح نے بھی ٹرمپ کے پیش کردہ نئے جنگ بندی منصوبے کو "غیرمنصفانہ اور ناقابلِ عمل" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد حماس کو تنہا کرنا اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتے عوامی غیظ و غضب کو دبانا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس منصوبے میں کوئی حقیقی اور قابلِ عمل منصوبہ موجود نہیں۔
ٹرمپ کا 21 نکاتی منصوبہ، فلسطینی مزاحمت کی نظر میں اسرائیل کو شکست سے بچانے کی کوشش ہےکئی تجزیہ کاروں اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کا 21 نکاتی منصوبہ دراصل غزہ میں اسرائیل کی عسکری و سیاسی ناکامی کو ڈھانپنے اور اسے شکست سے نجات دلانے کی ایک کوشش ہے۔
غزہ کی جنگ میں اسرائیلی فوج اپنے بڑے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی نہ وہ مزاحمتی ڈھانچے کو مکمل طور پر ختم کرسکی، نہ ہی اپنے سب قیدیوں کو آزاد کروا سکی اور نہ ہی صیہونی بستیوں کو دوبارہ محفوظ بنا پائی۔
اب ٹرمپ کا منصوبہ انہی اہداف کو میدان جنگ کے بجائے سیاسی راستے سے حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کو مکمل طور پر غیر مسلح کر کے غزہ کی انتظامیہ سے باہر کیا جائے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل مزاحمت کی بنیاد کو منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
منصوبے کے تحت برطانوی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو "غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشن اتھارٹی" (GITA) کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔
مبصرین کے مطابق بلیئر کے اسرائیل اور امریکا سے قریبی تعلقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس اتھارٹی کا مقصد غزہ پر مغربی اثر و رسوخ قائم کرنا ہے، جو براہ راست فلسطینی عوام کی مرضی اور مزاحمت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔منصوبے میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ غزہ کے شہریوں کو اردن اور مصر جیسے دیگر ممالک میں منتقل کیا جائے۔
فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے اسے "نسلی تطہیر" اور "جبری بے دخلی" قرار دیا ہے۔
مزید یہ کہ منصوبہ اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلاء کے لیے کوئی واضح ٹائم فریم بھی پیش نہیں کرتا، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ محض ایک سیاسی چال ہے تاکہ اسرائیل پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کو کم کیا جاسکے۔
فلسطینی گروہوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ بحران کا حل نہیں بلکہ اسرائیل کو شکست سے بچانے اور امریکا و اسرائیل کے ایجنڈے کو فلسطینی عوام پر مسلط کرنے کی کوشش ہے۔
اس منصوبے میں نہ تو فلسطینی عوام کی شمولیت ہے اور نہ ہی ان کی رائے کا کوئی احترام، جو براہِ راست بین الاقوامی قوانین میں درج "حقِ خود ارادیت" کی خلاف ورزی ہے۔
منصوبہ مزاحمت کو اسلحے سے محروم کرنے پر زور دیتا ہے، لیکن اسرائیلی قبضے کے خاتمے، صیہونی کالونیوں کی توسیع روکنے یا فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے بارے میں کوئی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔
یوں فلسطینی عوام کے لیے نہ تو حقیقی سلامتی ہے اور نہ ہی خودمختاری۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ کا یہ 21 نکاتی منصوبہ انصاف پر مبنی کوئی حل نہیں بلکہ ایک ایسا سیاسی ہتھیار ہے جو اسرائیل کو جنگی ناکامیوں سے نکالنے اور خطے پر امریکا و اسرائیل کے مفادات پر مبنی نیا نظام مسلط کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔