راحیل شریف سے سعودی فوجی اتحاد کی ملازمت کی تفصیلات طلب
سپریم کورٹ نے پاکستان فوج کے تمام کمیشنڈ افسران کی شہریت اور جنرل (ر) راحیل شریف و شجاع پاشا کو بیرون ملک ملازمت کی اجازت کی تفصیلات طلب کرلیں۔
سپریم کورٹ میں ججز اور سرکاری افسران کی دہری شہریت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سیکرٹری دفاع عدالت میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کو بیرون ملک ملازمت کی اجازت دینے کی تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد ہی بیرون ملک ملازمت کے لئے چلے گئے،اتنے بڑے اور اہم ادارے کے سربراہ یوں چلے جاتے ہیں، کیا قانون میں اس کی کوئی ممانعت نہیں؟ جنرل شجاع پاشا بھی اسی طرح بیرون ملک ملازمت کے لئے چلے گئے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق وفاقی حکومت سول سرونٹ ملازمین کو بیرون ملک ملازمت کی خصوصی اجازت دے سکتی ہے، ملازمت ختم ہونے کے دو سال بعد کوئی بھی سرکاری ملازم بیرون ملک جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس قانون کے ہونے کے باوجود سرکاری ملازمین کو ملازمت کے فوری بعد باہر جانے کی اجازت ہوسکتی ہے، کیا اس قانون کا اطلاق مسلح افواج پر نہیں ہوتا، میں نہیں سمجھتا کہ وفاقی کابینہ نے کوئی ایسی خصوصی اجازت دی ہے، ہم ایجنسیوں کے لوگوں کی بہت قدر کرتے ہیں، ان لوگوں کو تو کئی کئی سال تحفظ ملنا چاہئے، ان کے پاس بڑی حساس معلومات ہوتی ہیں، خدانخواستہ کچھ ہو نہ جائے، معاملے پر غور کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں فوجی اتحاد میں شمولیت کی مخالفت کی گئی لیکن اس کے باوجود نواز شریف کی حکومت نے انہیں سعودی عرب جانے کی اجازت دی جس پر ایوان بالا سینٹ اور ایوان زیریں قومی اسمبلی میں زبردست ہر ہنگامہ ہوا اور پارلیمنٹ سے باہر بھی پاکستانی عوام اور سیاسی جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے پاکستان سے یمن پر سعودی جارحیت میں شامل نہ ہونے اور ثالث کا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔