فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔
سحر نیوز/ پاکستان: سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ فل کورٹ اس وقت بنانا ناممکن ہے، 3 ججز نے کیس سننے سے معذرت کی، جسٹس اطہر من اللّٰہ ملک سے باہر ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر دلانا چاہتا ہوں، آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، جسٹس اجمل میاں کے فیصلے میں سیکشن 8 ٹو کا حوالہ دیا گیا، فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف افواج کے اہلکاروں کا ہو سکتا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہو گی۔
عابد زبیری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کیس کے فیصلے میں ہے کہ ایسا قانون لاگونہیں ہو سکتا جس سے بنیادی حقوق معطل ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا ہے کہ فوجی عدالتیں سویلینز کے ٹرائل کی آئینی عدالتیں نہیں، میری درخواست میں آرٹیکل 245 کے تحت افواج طلب کرنے کا معاملہ بھی ہے، عدالت نے ایف بی علی کیس میں سویلین کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل پر لکھا، عدالت نے کہا کہ سویلین دفاعی معاملات میں ملوث نکلے تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو سکتا ہے، 21 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں فوجی عدالتوں سے سزاؤں پر جوڈیشل ریویو کی اجازت تھی، بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا۔