سائفر کیس میں فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سائفر کیس میں ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سحر نیوز/ پاکستان: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی جہاں عمران خان کے وکلا، وفاقی تحقیقاتی ادارہ کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل دیئے۔
عدالت نے کہا کہ سائفر کے ذریعے جو بھی معلومات آ رہی ہیں کیا وہ آگے بڑھائی نہیں کی جا سکتیں، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایک کیٹگری میں آپ کر سکتے ہیں دوسری کیٹگری میں آپ نہیں کر سکتے، یہ سائفر ٹاپ سیکرٹ تھا اس سے شئیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5 کی درست تعریف یا تشریح نہیں کی، چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی معلومات عوام تک پہنچائیں جس کے وہ مجاز نہیں تھے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سائفر آنے کے رولز آف پریکٹس ہوں گے، کچھ ایس او پیز بنائے ہوں گے، اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ سائفر کی دو کیٹگریز ہوتی ہیں جن میں سے ایک کی کمیونی کیشن کی جا سکتی ہے مگر دوسری کیٹگری کی نہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ قابل دست اندازی جرم پر ایف آئی آر کا اندراج بنتا ہے، وفاقی حکومت نے سیکریٹری داخلہ کو شکایت درج کرنے کی منظوری دی۔
انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں 10 سال سے کم سزا والی دفعہ میں ضمانت ہو سکتی ہے لیکن 10 سال سے زائد سزا والی سیکشن لگی ہو تو وہ ناقابل ضمانت ہے۔
سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنایا۔