Mar ۲۷, ۲۰۲۴ ۱۲:۲۸ Asia/Tehran
  • ججز کا خط پاکستان کے انتظامی امور پر چارج شیٹ ہے: تحریک انصاف

پی ٹی آئی نے ہائیکورٹ ججز کے خط کے معاملے پر اوپن کورٹ سماعت کا مطالبہ کردیا ہے۔

سحر نیوز/ پاکستان: اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں عمر ایوب اور سیکریٹری اطلاعات رؤوف حسن کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب میں پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ججز کے خط کے بعد عمران خان کے خلاف فیصلوں کی قانونی حیثیت ختم ہوگئی، عدلیہ میں مداخلت کی مذمت کرتے ہیں اورججز کا خط پاکستان کے انتظامی امور پر چارج شیٹ ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا۔ جج صاحبان نے پہلی بار ایسا خط لکھا ہے۔

بیرسٹر گوہر کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحبان کو دباؤ میں لایا گیا۔ مداخلت کا مقصد من پسند فیصلے کروانا تھا۔ جج صاحبان کی برداشت ختم ہوگئی ہے۔ پوری قوم ججز کے ساتھ کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جج صاحبان نے ٹیریان وائٹ والے کیس کا ذکر کیا۔ اس میں توشہ خانہ کیس بھی شامل ہے۔ توشہ خانہ کیس میں سیشن جج پر دباؤ ڈالا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز دباؤ سے متاثر ہوئے جبکہ ماتحت عدالتیں بھی متاثر ہوئیں۔

بیرسٹر گوہر کا مزید کہنا تھا کہ اسی وجہ سے 5 دنوں میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سزائیں سنائی گئیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے محدود وقت میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی پر 200 کیسز بنوائے۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی کسی کیس میں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔ اس خط کے بعد بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف دیے گئے فیصلوں کی قانونی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس معاملے پر آج ہی لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔

اس موقع پر رہنما پی ٹی آئی عمر ایوب خان کا کہنا تھا کہ کل 6 ججز نے جو لیٹر لکھا وہ موجودہ سسٹم کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ خط میں واضح لکھا ہے کہ اس پورے معاملے میں ایک شخص مطلب قیدی نمبر804 تھا۔ ہم اس مسئلے کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اٹھائیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سنہ 2018 میں برطرفی کو غلط اورغیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی آمیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

ٹیگس