پاراچنار کے حالات کب تک کشیدہ رہیں گے؟
پاراچنار میں بچوں کی اموات، غذائیت کی کمی، کھانسی اور بخار کے پھیلاؤ کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
سحر نیوز/ پاکستان: پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے علاقے کرم کو جانے والے راستے گزشتہ 50 روز سے بند ہیں جس کی وجہ سے طالبعلموں کو اسکول جانے کے لیے شدید سردی میں طویل مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔ گاڑیاں یا دیگر سواریاں نہ ہونے کی صورت میں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد اسکول جانے سے قاصر ہے۔
گیس اور لکڑیاں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کوئلے کا استعمال کررہے ہیں جسے موسمِ سرما میں محفوظ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جب یہ دستیاب ہوتے ہیں، تو اس کا معیار انتہائی خراب ہوتا ہے جس کی وجہ سے سینے کے انفیکشنز میں اضافہ ہورہا ہے۔
آٹے اور ایندھن کی قلت بھی ہے جس کی وجہ سے کئی تندور بند ہو گئے اور لوگ ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔
پاراچنار میں بچوں کی اموات، غذائیت کی کمی، کھانسی اور بخار کے پھیلاؤ کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اورکرم میں نظام زندگی مفلوج ہوچکا ہے، لوگ روزگار سے محروم ہیں بالخصوص وہ لوگ جو مزدور ہیں اور روزانہ کی دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ وہ اب ہسپتال اور ادویات کے اخراجات نہیں اٹھا پاتے۔
پاراچنار سرحد، مرکزی سڑک اور پہاڑی راستوں سے منقطع ہے۔ 21 نومبر کے واقعے اور اس کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں 130 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کو بھگن جیسے مقامات سے گزرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کے قافلوں پر بھی بھروسہ نہیں رہا کہ وہ انہیں محفوظ انداز میں لے جائیں گے۔ ایسے علاقوں میں کشیدگی عروج پر ہے جبکہ لوگوں کا صبر بھی جواب دے رہا ہے۔
کوہاٹ میں منعقدہ گرینڈ جرگہ فیصلہ نہیں کرپایا کہ سڑکوں کو کیسے کھولا جائے گا۔ لوگ حکام سے سوال کرتے ہیں کہ اگر وہ سڑکیں نہیں کھول سکتے تو کون کھولے گا؟
کرم کی حالیہ کشیدہ صورت حال کا ذمہ دارو وہ بیرونی طاقتیں ہیں جو اپنے مفادات کی غرض سے دانستہ طور پر اس خطے میں آگ کو بھڑکا رہے ہیں۔